کراچی پر چھا جانے والی ایم کیو ایم ریموٹ کنٹرولڈ پارٹی کیسے بنی؟

معروف صحافی اور تجزیہ کار مظہر عباس نے کہا ہے کہ ایک زمانے میں عوام کی طاقت سے کراچی پر چھا جانے والی ایم کیو ایم اب سیاسی روبوٹس پر مبنی ایک کٹھ پتلی جماعت بن چکی ہے جسے فوجی اسٹیبلشمنٹ ریموٹ کنٹرول کے ذریعے اپنی مرضی سے چلاتی ہے۔ مظہر عباس کہتے ہیں کہ ایک وقت تھا جب سیاست کا مرکز عزیز آباد ہوتا تھا۔ کیا صدر، کیا وزیر اعظم، کیا پی پی پی اور کیا مسلم لیگ (ن) حکومت بنانی ہو یا توڑنی ہو ’’حاضری‘‘ ضروری تھی۔ لیکن اج پوری کی پوری ایم کی ایم ایک ریموٹ سے کنٹرول ہو رہی ہے۔

اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں مظہر عباس کہتے ہیں کہ ’’روبوٹس” پر مبنی ایم کیو ایم اپنے وقت کی سب سے زیادہ منظم اور شہری سندھ کی نمائندہ جماعت تھی۔ انکا کہنا ہے کہ مہاجر پارٹی کے مختلف دھڑوں کے انضمام کے بعد سے ایک بات پھر ایم کیو ایم بڑی تقسیم کی جانب بڑھ رہی۔ اسکی وجہ پارٹی کے چیئرمین خالد مقبول صدیقی ہیں جو وفاقی وزیر بھی ہیں اور ایک اچھے روبوٹ کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ لیکن اس وجہ سے انہیں اپنی ہی پارٹی میں شدید مخالفت کا سامنا ہے۔

مظہر عباس کہتے ہیں کہ ایم کیو ایم کے مرکزی لیڈران خالد مقبول صدیقی سے کئی بار درخواست کر چکے ہیں کہ وہ ’’دو ٹوپیاں‘‘ پہننے کی بجائے ایک ’’ٹوپی‘‘ پہنیں۔ مگر جب آپ ’’روبوٹ‘‘ بن جاتے ہیں تو پھر اصل فیصلہ تو کسی اور نے کرنا ہوتا ہے، بدقسمتی سے ایم کیو ایم 22 اگست 2016 کے بعد سے مکمل طور پر ریموٹ سے کنٹرول ہو رہی ہے، مثالیں ہمارے سامنے ہیں ، پارٹی میں ایک وقت میں گورنر سندھ کامران ٹیسوری کے حوالے سے شدید اختلافات تھے۔ پھر ایک دن ریموٹ کنٹرولر آئے، انہوں نے ٹیسوری کو اپنے ساتھ بٹھایا اور بس اتنا کہا کہ آج سے یہ ہمارے گورنر ہیں، لو کر لو گل۔

مظہر عباس بتاتے ہیں کہ دوسری مثال مصطفی کمال کی پاک سر زمین پارٹی کی ہے، جب 2016 میں یہ جماعت لانچ کی گئی تو اُس کا ٹارگٹ بانی متحدہ اور ایم کیو ایم تھی۔ لیکن اب سابق میئر مصطفیٰ کمال اور مرکزی لیڈر انیس قائم خانی بھی ایم کیو ایم (پاکستان) کا حصہ بن چکے۔ اب سب فیصلے ریموٹ کنٹرول سے ہوتے ہیں اور یہی ہماری سیاست کی بدقسمتی ہے۔

وہ کہتے ییں کہ اب ان کو میں ’’روبوٹ‘‘ نہ کہوں تو کیا کہوں کہ 2018ء میں پارٹی کی کار کردگی بُری نہیں تھی۔ اس نے 8 سے 10 سیٹیں جیتی تھیں مگر تب عمران خان کو اقتدار میں لانا مقصود تھا لہٰذا نہ صرف ایم کیو ایم کی سیٹوں کی تعداد کم کر دی گئی بلکہ کہا گیا کہ خان کی حمایت کرنی ہے اور ’’انکار‘‘ کی صورت میں اپنے خلاف کیسز کے لیے تیار رہیں۔ پھر جب عمران کے خلاف ’’عدم اعتماد‘‘ کی تحریک آئی تو اُنہی روبوٹس سے کہا گیا، کہ عمران کے خلاف ووٹ دینا ہے۔

مظہر عباس کا کہنا ہے کہ یہ سب کچھ ہو جانے کے باوجود ایم کیو ایم آج بھی روبوٹس کی پارٹی بنی ہوئی ہے۔ جب گورنر سندھ کی ایک آڈیو لیک ہوئی تو پارٹی کی مرکزی کمیٹی معطل کر دی گئی۔ اس وقت صرف پارٹی کے ایک چیئرمین ہیں اور باقی عہدے خالی ہیں۔ جب 8 فروری 2024ء کا الیکشن ہوا تو پارٹی کو 17 سیٹیں دلوا دی گئیں جبکہ صورتحال انتہائی بد ترین تھی اور شاید ایم کیو ایم کو دو یا تین سیٹیں بھی مشکل سے نصیب ہوتیں۔ اس سے پہلے 1992 میں جن ’’روبوٹس‘‘ کو لایا گیا تھا اُن بیچاروں کا بھی بس استعمال ہوا اور پھر اُنہیں ناکارہ بنا دیا گیا اور اگے چل کر بھی ایسا ہی ہونا ہے۔

Back to top button