حسین نواز نے نواز شریف کی نااہلی کا الزام فیض حمید پر لگا دیا
سابق وزیراعظم کے صاحبزادے حسین نواز شریف نے کہا ہے کہ ان کے والد کو 2017 میں ناہل کروانے کے لیے متعصب ججز پر مبنی بینچ آئی ایس آئی کے سابق چیف لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید نے بنوایا تھا، بعد میں زیر سماعت کیس پر اثر انداز ہونے کے لیے تشکیل دی جانے والی جے آئی ٹی بھی فیض حمید نے بنوائی جس میں ایجنسیوں سمیت تمام شریف مخالف افسران شامل کیے گے تھے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ نواز شریف کو بیٹے کی کمپنی سے تنخواہ نہ لینے کے جرم میں ناہل کر دیا گیا حالانکہ کمپنی تو بند ہو چکی تھی لہذا تنخواہ لینے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔
حسین نواز شریف نے جنگ گروپ سے وابستہ سینیئر صحافی فخر دورانی کو انٹرویو دیتے ہوئے جے آئی ٹی کی تشکیل میں تعصب اور رازداری عیاں کی ہے۔ حسین نواز نے 2006 کے بعد سے نوازشریف کی تنخواہ کی وصولی کا ثبوت مانگتے ہوئے کہا کہ متعلقہ کمپنی تو بہت پہلے ہی بند ہوچکی تھی لہازا تنخواہ لینے کا تو سوال ہی نہیں بنتا تھا۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے پاناما کیس کے سابق جج جسٹس اعجاز افضل خان نے نواز شریف کی تنخواہ کے حوالے سے حقائق کو غلط بیان کیا۔
حسین نواز کے مطابق جے آئی ٹی کے انتخاب میں تنازع تھا، ججوں نے فیض حمید کے چنے ہوئے لوگوں پر مشتمل جی آئی ٹی بنا کرقانونی عمل کا مذاق بنایا۔ نوازشریف کا دبئی اقامہ ایک قانونی انتظام تھا جس میں کوئی کرپشن نہیں تھی۔
حسین نواز نے جسٹس اعجاز افضل خان کے پاناما فیصلے بارے دعوؤں کا جواب بھی دیا۔ یاد رہے کہ فخر درانی نے اس سے پہلے جسٹس اعجاز افضل کا انٹرویو کیا تھا جس میں انہوں نے اپنے فیصلے کی تفصیلات پہلی بار ریٹائرمنٹ کے بعد بیان کیں۔
حسین نے ریٹائرڈ جج اعجاز افضل کے اس اعتراف کو "جانبداری اور قانون کے بنیادی اصولوں کا مذاق” قرار دیا، جس میں انہوں نے جے آئی ٹی کے منتخب کردہ افسران کو واٹس ایپ کالز کے ذریعے شامل کیا۔ انہوں نے کہا "اگر شفافیت مطلوب تھی تو انہیں خود شفاف ہونا چاہیے تھا۔ جے آئی ٹی کی تشکیل میں دھندلی اور خفیہ واٹس ایپ کالز کے ذریعے کیا وجہ تھی؟ اگر انہیں جے آئی ٹی میں ایماندار اور شفاف افراد چاہیئے تھے، تو وہ کھلی عدالت میں کہہ سکتے تھے اور کوئی ان کو روک نہیں سکتا تھا۔ اس کے بجائے، انہوں نے پس پردہ جا کر اپنے منتخب کردہ افراد کو شامل کرایا اور اسے سرکاری ریکارڈ کا حصہ نہیں بنایا۔ حسین کا کہنا تھا کہ یہ جج ممکنہ حکومتی مداخلت کا جواز دے کر کر پورا سسٹم نہیں الٹا سکتے تھے۔ ویسے بھی حکومت مداخلت کر بھی کیسے سکتی تھی جب آپ کو اسٹیبلشمنٹ کی مکمل حمایت حاصل ہو۔
حسین نواز کا کہنا تھا کہ یہ سب عدالتی اختیار اور عدالتی عمل کی دھجیاں بکھیرنے کا ناقابل معافی غلط استعمال تھا جو ایک منتخب وزیراعظم کو ہٹانے کے لیے استعمال کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ فوجی اسٹیبلشمنٹ کا ایجنڈا پورا کرنے کے لیے فیض حمید نے سپریم کورٹ کے ججز سے ان لوگوں کو جے ائی ٹی میں شامل کروایا جو شریف خاندان کے مخالف تھے۔ اس پوری کارروائی میں جسٹس (ر) عظمت سعید شیخ کا اہم کردار تھا۔انہوں نے بطور ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل نیب جنرل مشرف کے دور میں شریف خاندان کے خلاف جھوٹے مقدمات بنائے اور بعد میں ان کا فیصلہ کرنے کے لیے بینچ میں بھی بیٹھے، جو خود ہی مقدمے کی کارروائی کو کالعدم قرار دینے کے لیے کافی ہے۔
نواز شریف کے خلاف الزامات کی تحقیقات کرنے والی جی ائی ٹی کے ممبران کا حدود اربعہ بتاتے ہوئے حسین نواز نے کہا کہ”سٹیٹ بینک کے عامر عزیز جسٹس شیخ عظمت سعید کے قریب ترین ساتھی تھے اور انہیں اسی لیے جے آئی ٹی کا حصہ بنایا گیا۔ یوتھیے حماد اظہر کے فرسٹ کزن بلال رسول کو بھی واٹس ایپ کال کے ذریعے جے آئی ٹی میں شامل کیا گیا۔ چیئرمین نیب کو ایک اور واٹس ایپ کال کے ذریعے کہا گیا کہ وہ عرفان نعیم منگی کو جے آئی ٹی کے لیے نامزد کر دیں۔ یوں جے آئی ٹی مکمل طور پر شریف مخالف افسران پر مبنی تھی جو اپنے کٹھ پتلی کے مقاصد پورا کرنے کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتے تھے۔
حسین نواز نے کہا، "ایک اہم قانونی اصول ہے کہ کوئی شخص اپنے ہی کیس میں جج نہیں بن سکتا۔ لیکن یہی اعظم سعید شیخ تھے جنہوں نے پہلے مشرف دور میں شریف خاندان کے خلاف بے بنیاد مقدمات کی بنیاد رکھی اور پھر پاناما بنچ پر بیٹھ کر فیصلہ دیا! مختصراً، سب کچھ پہلے سے طے شدہ تھا۔ وہ چاہتے تو بغیر سماعت کے فیصلہ سناتے اور قوم کا وقت اور پیسہ بچاتے۔جب ان سے پوچھا گیا کہ آیا انہیں لگتا ہے کہ ججز پر کوئی دباؤ تھا یا ان کے شریف خاندان کے خلاف ذاتی بغض تھا، تو حسین نواز نے کہا، "مجھے نہیں معلوم کہ ججز پر کوئی دباؤ تھا یا وہ ذاتی بغض کی بنیاد پر کام کر رہے تھے، لیکن مجھے جسٹس شوکت صدیقی کے انکشافات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت ججز۔ہر دباو معمول بن چکا تھا!”