پاکستان اور بھارت کو جنگ سے کتنے ارب ڈالرز کا نقصان ہو گا؟

معاشی ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ انڈیا اور پاکستان کے مابین جنگ شروع ہونے کی صورت میں دونوں ملکوں کو اربوں روپے خرچ کرنا پڑیں گے جس سے ملکی معیشت کا جنازہ نکل جائے گا اور اور دونوں اطراف کے عوام کو اس جنگ سے بھیانک معاشی مسائل برداشت کرنا ہوں گے۔

معاشی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگردونوں ایٹمی ہمسایوں میں جنگ شروع ہونے کے بعد بے قابو ہو گئی تو نقصانات  کا اندازہ اعداد و شمار  میں لگانا بہت مشکل ہو گا۔ ان کا کہنا تھا کہ آج کے دور میں جنگ لڑنا بہت مہنگا کام ہے اور ماضی قریب میں جن ممالک نے جنگیں لڑی ہیں وہ اس وقت معاشی تباہی اور بربادی کا شکار ہیں۔

معروف ماہر معاشیات ڈاکٹر قیصر بنگالی کا کہنا تھا کہ جنگ کی معاشی تباہ کاریوں کا پیشگی اندازہ لگانا آسان نہیں کیونکہ ہم نہیں جانتے کہ ممکنہ پاک بھارت جنگ کیسی ہوگی، کتنے بڑے سکیل پر لڑی جائے گی، کتنے دن جاری رہے گی اور اس کے نتیجے میں کتنا انفراسٹرکچر تباہ ہو گا۔ لیکن ہم یہ بات کہہ سکتے ہیں کہ پاک بھارت جنگ چھڑنے کی صورت میں دونوں ملکوں میں مہنگائی کا سیلاب آ جائے گا اور  سرمایہ کاری کا عمل بھی بری طرح متاثر ہوگا۔ ” ممبئی اور کراچی پورٹس بند ہو جائیں گے جس کے بعد وار پریمیم لگ سکتا ہے، اسکے علاوہ مارکیٹ سکڑ جائے گی، پیداواری اخراجات بڑھ جائیں گے اور ایکسپورٹس اور امپورٹس بھی بری طرح متاثر ہوں گی جس سے دونوں ملکوں کی معیشت کی کمر ٹوٹ جائے گی۔

 ایک اور معروف معاشی تجزیہ کار ڈاکٹر فرخ سلیم  نے بتایا کہ اگر پاک بھارت جنگ لگی تو اس میں بھارت کے روزانہ چھ سو پچاس ملین ڈالرز خرچ ہوں گے۔ پاکستان کا روزانہ کا جنگی خرچہ دو سو پچاس ملین ڈالرز کے قریب ہوگا۔  ان کے مطابق  براہ راست فوجی اخراجات میں فوجیوں کی تعیناتی، فضائیہ کی پروازیں، بحری افواج کی کارروائیاں، گولہ بارود اور توپ خانہ، خوراک اور ایندھن سمیت بہت سے دیگر اخراجات بھی شامل ہوتے ہیں۔ جنگ سے ہونے والے مالی نقصانات میں براہ راست فوجی اخراجات کے علاوہ وسیع پیمانے پر ہونے والا معاشی نقصان اور طویل مدتی بحالی کا بوجھ بھی شامل ہو گا۔ فرخ سلیم کا کہنا تھا کہ بھارت کے پاس 14 لاکھ فعال فوجی اہلکار موجود ہیں۔ اگر ان میں سے نصف یعنی تقریباً 7 لاکھ فوجی بھی جنگی ڈیوٹی پر لگائے جائیں، تو انکی روزانہ کی اجرت کا تخمینہ 35 ملین ڈالرز ہوگا، جبکہ ان کی خوراک اور ایندھن کے لیے اضافی 20 ملین ڈالرز درکار ہوں گے۔ اس کے علاوہ مزید 5 لاکھ ریزرو اور نیم فوجی دستوں کی تعیناتی روزانہ تقریباً 15 ملین ڈالرز کا خرچہ کرے گی، لہذااس مد میں بھارت کے روزانہ کے کُل اخراجات  تقریباً 70 ملین ڈالرز ہو جائیں گے۔

دوسری طرف پاکستان کے ساڑھے چھ لاکھ فعال فوجی اہلکاروں میں سے 50 فیصد کی تعیناتی کا خرچ 15 ملین ڈالرز ہوگا، جبکہ ان کی خوراک اور ایندھن کے لیے روزانہ 10 ملین ڈالرز درکار ہوں گے۔ اسکے علاوہ 2 لاکھ ریزرو  فوجیوں کی تعیناتی روزانہ مزید 5 ملین ڈالرز خرچے کا اضافہ کرے گی۔ ڈاکٹر فرخ سلیم کے مطابق ایک جنگی جہاز کی ایک پرواز کی لاگت 50 ہزار ڈالرز کے بنتی ہے۔ ایک میزائل کی قیمت تقریباً دو سے تین  ملین ڈالرز اور صرف ایک بارودی گولے کی قیمت ایک ہزار ڈالرز ہے۔‘‘

دوسری طرف ڈاکٹر قیصر بنگالی بتاتے ہیں کہ جولائی 1965 میں پاکستان نے اپنا تیسرا پانچ سالہ ترقیاتی منصوبہ بنایا لیکن ستمبر 1965 میں پاک بھارت جنگ لگ گئی اور سارے فنڈز جنگ کی نذر ہو گئے۔ ان کے مطابق برطانیہ کو دوسری جنگ عظیم کی وجہ سے بھارت کو آزاد کرنا پڑا اور وہ ابھی تک اس جنگ کے اثرات سے پوری طرح نہیں نکل پایا۔ ان کا کہنا تھا کہ جنگ سے عام آدمی زیادہ متاثر ہوتا ہے جس کی کوئی آواز نہیں ہوتی۔ انہوں نے بتایا کہ بھارت کا اصل حریف چین  ہے اور پاک بھارت جنگ کی صورت میں انڈیا کی چین کے خلاف جنگ لڑنے کی صلاحیت میں کمی واقع ہو سکتی ہے۔ انکا کہنا تھا کہ اگر پاک بھارت جنگ لگی تو اس میں کوئی فاتح نہیں ہوگا ۔جو ملک جنگ جیت جاتا ہے اس کو بھی اس کی بھاری مالی قیمت چکانا پڑتی ہے۔ جنگ پر اٹھنے والے اخراجات دراصل وہ پیسے ہوتے ہیں جو ہسپتالوں، سکولوں اور سڑکوں کی تعمیر یا دیگر ترقیاتی منصوبوں پر خرچ ہونا تھے۔

ڈاکٹر قیصر بنگالی کا کہنا تھا کہ  بھارت اور پاکستان کے مابین نیوکلیئر جنگ نہ بھی ہو تو ایک روایتی جنگ بھی ناقابل تصور تباہی کا سبب بن سکتی یے۔ انکا کہنا تھا کہ جنگ دونوں ممالک کی عشروں کی ترقی کو مٹا دے گی، اور کروڑوں عوام کو غربت اور ماحولیاتی کمزوریوں کی دلدل میں دھکیل دے گی۔ ان کے مطابق آج اگر مکمل جنگ چھڑ جائے تو اس کے اثرات کہیں زیادہ تباہ کن ہوں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ جنگ کی صورت میں بھارت کے معاشی اخراجات 18 ارب ڈالرز تک جا سکتے ہیں۔ دوسری جانب، پاکستان کی نازک معیشت پہلے ہی زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی اور آئی ایم ایف پر انحصار کا شکار ہے۔ ایسے میں بھارت سے جنگ پاکستان میں مہنگائی میں شدید اضافے اور ضروری اشیاء کی قلت کا سبب بن سکتی ہے۔ انکا کہنا تھا کہ یہ تنازع ماحولیاتی نظاموں کے لیے بھی بڑی تباہی لا سکتا ہے۔

Back to top button