ن لیگ عمران کو کاؤنٹر نہ کر پائی تو عاصم منیر کے حامی کیا کریں گے؟

سینیئر صحافی اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے کہا ہے کہ جب تک عمران خان میدان سیاست میں موجود ہیں اور ان کی مقبولیت میں کمی نہیں آتی، موجودہ ہائبرڈ سیٹ اپ کو درپیش سیاسی چیلنج بھی برقرار رہے گا۔ انکا کہنا ہے کہ اگر نواز شریف اور شہباز شریف نے اب بھی سیاسی بے عملی ختم کرتے ہوئے لیڈ نہ لی تو فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر کے حامیوں کا گروہ خود سامنے آ کر ایک نئے بیانیے کیساتھ تحریک انصاف کو کاؤنٹر کرنے کے لیے سر گرم ہو سکتا ہے۔ ایسی صورت میں حکومتی اتحادی جماعتوں کے لیے بھی سیاسی سپیس مزید کم ہو جائے گی۔
روزنامہ جنگ میں اپنے تجزیے میں سہیل وڑائچ کہتے ہیں کی حروف تہجی کے ہر لفظ کی اپنی اہمیت اور معنویت ہے، الف کی تو پوری کائنات پر چھتر چھایا ہے۔ لیکن اس وقت پاکستان میں جاری جنگ ع بمقابلہ ع ہے، اِدھر عمران خان ہے تو اُدھر عاصم منیر ہیں۔ اگر ریاست کی طاقت (جنرل) عاصم منیر اور اداروں کی گرفت (جنرل) عاصم ملک کے پاس ہے تو اپوزیشن کی ڈور جیل میں قید عمران خان اور جیل سے باہر چیختی چنگھاڑتی علیمہ خان کے پاس ہے۔ اس لڑائی میں جہاں عاصم منیر کے ساتھ ایک تیسرا عین آئی ایس آئی چیف جنرل عاصم ملک کی صورت میں کھڑا ہے تو عمران کا بھی تیسرا متحرک ساتھی علی امین گنڈاپور ہے جس کا نام بھی عین سے شروع ہوتا ہے۔ گویا میدان جنگ میں ایک دو نہیں بلکہ چھ عین برسر پیکار ہیں۔ اس جنگ میں جو عین جیتے گی وہی حکومت کرے گی اور اسی کا ڈنکا بجے گا۔
سہیل وڑائچ بتاتے ہیں کہ چند سال پہلے کی بات ہے جب بشریٰ عمران کا روحانی جادو چل رہا تھا۔ فوج کے کئی اہم جرنیل بھی تب اپنے ارد گرد روحانی ہالہ بنا کر بنی گالہ حاضری دیا کرتے تھے تا کہ کہیں روحانی تیر کا شکار نہ ہوجائیں۔ اس زمانے میں روحانی موضوع پر لکھنا خلاف قانون و مذہب ٹھہرتا تھا لیکن میں نے پھر بھی لفظ عین پر خصوصی عنایتوں کے حوالے سے تجزیہ لکھا تھا۔ عمران خان کے وزارت عظمی سنبھالنے کے بعد عین والے عثمان بزدار کو وزیراعلی پنجاب بنایا گیا تھا جبکہ عین والے عمران اسماعیل سندھ کے گورنر بنے تھے۔ یہ ہر گز حسنِ اتفاق نہیں تھا کہ عین لفظ سے شروع ہونے والے عارف علوی کو صدارت ملی تھی۔ لیکن پھر کیا ہوا کہ وقت بدل گیا عین والا عمران خا کا قریبی دوست عون چوہدری نا پسندیدہ قرار پایا ، قاف والے جنرل قمر باجوہ سے بھی کپتان کا ٹکراؤ ہو گیا اور آخر میں عین غین کی کوئی تمیز نہ رہی۔
جب وقت بدلنے لگا تو نہ روحانیت اور علم الاعداد کام آئے اور نہ ہی چھو منتر نے کوئی جادو دکھایا، نہ تو تصاویر دیکھ کر درست جرنیل پروموٹ کرنے کا گر چلا اور نہ ہی ایسے جرنیلوں سے معاملات طے کرنا کا فارمولہ کامیاب ہو پایا، عین والے جنرل عاصم منیر چیف آف آرمی اسٹاف بننے میں کامیاب ہو گے تو عین والے عمران کا سیاسی بستر گول ہونا شروع ہو گیا۔ لیکن ابھی تک یہ بستر بند ہی پڑا ہے، کھل نہیں سکا اور نہ ہی ابھی اس کے کھلنے کا امکان نظر آ رہا ہے۔
سہیل وڑائچ کہتے ہیں یاد کریں وہ وقت جب بشریٰ اپنے خاوند کی سیاست کو بھی کنٹرول کرتی تھی۔ تب عین والی علیمہ کو مسلسل پس منظر میں دھکیلنے کی کوشش کی جاتی تھی۔ عمران خان کے دور ِحکومت میں جب بشریٰ پنکی اور فرح گوگی کا طوطی بولتا تھا اور افسروں کی تقرری کیلئے مٹھی گرم کرنا پڑتی تھی، تب علیمہ خان اور انکی بہنیں عظمیٰ خان اور نورین نیازی کو پس منظر میں دھکیل دیا گیا تھا۔
لیکن اب وقت بدل چکا ہے۔ 9 مئی 2023 کی واردات کے بعد عمران خان جیل میں بند ہیں اور بشریٰ بی بی بھی اسلام آباد کے دھرنے سے جھوٹیاں اٹھا کر فرار ہونے کے بعد دوبارہ گرفتار ہو کر اڈیالہ پہنچ چکی ہیں۔ ایسے میں علیمہ خان کو عروج مل چکیا ہے، اسوقت تحریک انصاف کی مرکزی شخصیت وہی ہیں، نہ چیئرمین بیرسٹر گوہر کی کوئی اہمیت ہے اور نہ وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور کی۔ پارٹی میں اگر حکم چلتا ہے تو بس علیمہ خان کا۔ تحریک انصاف کا سوشل میڈیا اور باہر سے تحریک انصاف کی مالی امداد کرنے والے بھی علیمہ خان سے ہی ہدایات لیتے ہیں۔
سینیئر صحافی علیمہ خان کو عمران خان کی ہو بہو زنانہ کاپی قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ بشری کے اندر ہونے کے بعد علیمہ پارٹی کو سنبھال تو چکی ہیں لیکن یہ الگ بات ہے کہ سب ڈوریاں کپتان اپنے ہاتھ میں ہی رکھے گا، علیمہ کی ڈوری بھی کپتان جب چاہے گا بشریٰ بی بی اور گنڈا پور کی طرح کھینچ کر انہیں نھی صفر کر دے گا ،کپتان کسی کو فری ہینڈ نہیں دیتا۔ علیمہ کو البتہ اپنے بھائی کی نفسیات پر زیادہ عبور حاصل ہے، وہ بھائی کی پیار بھری ڈانٹ ڈپٹ بھی سن لیتی ہیں، خاندان میں وہ واحد ہیں جو شوکت خانم اور نمل یونیورسٹی پراجیکٹس میں شریک ہیں ۔
سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ لکیر کی دوسری جانب کی عین یعنی فیلڈ مارشل اس وقت ریاست کی سب سے طاقتور شخصیت بن چکی ہے۔ پاک بھارت جنگ میں برتری کے بعد امریکی صدر ٹرمپ سے لنچ ملاقات نے انکی پوزیشن کو مضبوط تر کر دیا ہے۔ عاصم منیر کی مضبوطی اور مقبولیت کا دوسرا مطلب دوسری عین یعنی عمران خان کی کمزوری اور عدم قبولیت کے تاثر کو بڑھا رہی ہے۔ عین کی اس لڑائی میں علیمہ خان کی عین نےصلح جوئی کی بجائے محاذ آرائی کا عندیہ دیتا ہے۔ انکا ہر بیان جیل کے دروازے توڑنے اور ریاستی قوانین کو پامال کرنے کا ہوتا ہے۔ لیکن دو عینوں کی اس لڑائی میں سب سے زیادہ فائدے میں نون لیگ رہی ہے۔
سینیئر صحافی کا کہنا ہے کہ 2024 میں حکومت ملنے کے بعد سے نون لیگ فوج کی زبانی حمایت میں تو آگے آگے ہے مگر سیاست کے عملی میدان میں کوئی چال چلنے کو تیار نہیں۔ نون کی سیاسی بے عملی کی سب سے بڑی اور واضح مثال یہ ہے کہ وہ تحریک انصاف کے اندرونی اختلافات سے بھی کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکی۔ جنگ کے بعد کی صورت حال میں جو ملک میں جو نفسیاتی تبدیلی آ چکی ہے اسے سیاسی تبدیلی میں بدلنے کیلئے ایک بھی قدم نہیں اٹھایا گیا ۔ تحریک انصاف کے اندر بڑھتے ہعئےباختلافات کے باوجود کے پی اسمبلی، پنجاب اسمبلی اور قومی اسمبلی میں کوئی فارورڈ بلاک نہ بنا پانا، ن لیگ کی سیاسی کمزوری کی نشانی ہے۔ پنجاب کے کسی بھی ضلع میں ابھی تک ن لیگ کا کوئی سیاسی کنونشن نہیں ہو سکا، پارٹی میں کوئہ نئی شمولیتیں بھی نہیں ہوئیں، جنگ کے بعد کی صورت حال پر جشن تک منانے کی سیاسی ترغیب نہیں دی گئی، ایسا لگتا ہے کہ نون لیگ سکتے کی حالت میں ہے۔
وفاقی بجٹ کے بعد عوام کیلئے ریلیف کی بجائے تکلیف میں اضافہ
دوسری جانب عین والے عمران کیساتھ لڑائی میں جنرل عاصم منیر کی عین لیڈ لے چکی ہے۔ انہیں کوئی بڑا خطرہ در پیش نہیں لیکن ان کیلئے کچھ چیلنجز ایسے ہیں جن کو نمٹائے بغیر وہ بھی چین کی نیند نہیں کے سکتے۔ پہلا چیلنج اقتصادی صورت حال کو بہتر کرنا ہے، حالیہ بجٹ کے اعداد و شمار نے وہ امید نہیں دکھائی جو مجموعی صورتحال میں نظرآرہی ہے۔ دوسرا چیلنج سیاسی عدم استحکام سے نمٹنا ہے جب تک عمران سیاسی میدان میں موجود ہیں، اور ان کی مقبولیت میں کمی نہیں آتی تب تک انکا سیاسی چیلنج برقرار رہے گا۔ جنرل عاصم منیر کی جانب سے انڈیا سے جنگ جیتنے اور امریکہ کا کامیاب دورہ کرنے کے بعد بھی اگر نواز شریف اور شہباز شریف نے لیڈ نہ لی تو پھر عاصم منیر کے حامی ایک نئے بیانیے کے ساتھ تحریک انصاف کو کاؤنٹر کرنے کے لیے سرگرم عمل ہو سکتے ہیں۔ اگر ایسا ہو گیا تو ملک میں سیاسی سپیس مزید کم ہو جائے گی۔