کیا مریم جان بوجھ کر چچا شہباز کے لیے مشکل کھڑی کرتی ہیں؟

وزیراعلی پنجاب مریم نواز کی جانب سے جارحانہ خطاب میں پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت کو طعنوں اور دھمکیوں کے بعد دونوں اتحادی جماعتوں کے مابین کشیدگی شدید تر ہو گئی ہے، ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہے کہ مریم نواز کے بیانات کی وجہ سے اتحادیوں میں اختلافات پیدا ہوئے ہوں، تاہم تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ گرما گرمی کے باوجود دونوں جماعتیں اسی تنخواہ پر ایک دوسرے کے ساتھ گزارا کریں گے۔ بنیادی وجہ یہ ہے کہ نہ تو مسلم لیگ نون پیپلز پارٹی کو گنوا کر اپنی حکومت گرانا پسند کرے گی اور نہ ہی پیپلز پارٹی حکومت چھوڑ کر آئینی عہدے گنوانے کا رسک لے گی۔
پنجاب کی منتقم مزاج وزیر اعلی مریم نواز کی جانب سے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام اور سندھ حکومت پر تنقید کے بعد سے مرکز کی دونوں اتحادی جماعتیں اس وقت آمنے سامنے کھڑی ہیں اور ان کے لب و لہجے میں شدت آتی جا رہی ہے، ایک کے بعد ایک پریس کانفرنس یا کسی عوامی اجتماع سے خطاب کے دوران پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے ایک دوسرے کو ہدف تنقید بنانا شروع کر دیا ہے، یوں تو دونوں جماعتوں کے درمیان ڈھکے چھپے انداز میں اختلافات کئی ماہ سے مختلف ایشوز پر چلے آ رہے تھے مگر اب کھل کر سامنے آنا حیران کن ہے۔ بنیادی وجہ یہ ہے کہ موجودہ حکومتی سیٹ اَپ طویل عرصے کیلئے بنایا گیا تھا، لیکن دونوں کی جانب سے اتنی جلدی توپوں کا رخ ایک دوسرے کی طرف کر لینا سیاسی ہیجان پیدا کر رہا ہے۔ توہم کچھ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ایسا تو ہونا تھا کیونکہ جب اپوزیشن جماعت کو دیوار کے ساتھ لگا دیا جاتا ہے تو اتحادی جماعتیں آپس میں لڑنا شروع کر دیتی ہیں۔
حیران کن بات یہ ہے کہ مریم نواز نے پیپلز پارٹی کے احتجاج کے باوجود اپنی دھمکی آمیز گفتگو کے حوالے سے معافی نہیں مانگی حالانکہ ان کے چچا شہباز شریف کی حکومت پیپلز پارٹی کے سر پر قائم ہے۔ پیپلز پارٹی اگرچہ وفاقی کابینہ کا حصہ نہیں ہے مگر اس کی حمایت کے بغیر نہ تو شہباز حکومت قائم ہو سکتی تھی نہ ہی جاری رہ سکتی ہے، قومی اسمبلی میں اگر نمبر گیم کا جائزہ لیا جائے تو مسلم لیگ (ن) کے پاس 125 نشستیں ہیں، پیپلز پارٹی کے پاس 74 نشستیں ہیں، ایم کیو ایم کے پاس 22 ، مسلم لیگ قاف کے پاس پانچ ، استحکام پاکستان پارٹی کے پاس چار جبکہ مسلم لیگ ضیا، بلوچستان عوامی پارٹی اور نیشنل پارٹی کے پاس ایک ایک نشست ہے، اس طرح حکومتی بنچز کے تمام نمبرز ملا کر 233 بنتے ہیں۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر پیپلز پارٹی کی 74 نشستوں کی حمایت ختم ہو جائے تو شہباز شریف کے پاس صرف 159 ووٹ بچیں گے جبکہ انہیں اپنی حکومت قائم رکھنے کیلئے درکار ووٹوں کی تعداد 169 ہے، یعنی یہ واضح ہے کہ پیپلز پارٹی کے بغیر (ن) لیگ حکومت نہیں چلا سکتی۔ ایسے میں نواز شریف کو اپنے بھائی شہباز شریف کی حکومت بچانے کے لیے اپنی بیٹی مریم نواز کو سمجھانا ہوگا تاکہ پیپلز پارٹی کی ناراضی ختم کی جا سکے۔ تاہم مریم نواز کے قریبی حلقوں کا کہنا ہے کہ نہ تو انہیں نواز شریف نے اس حوالے سے کوئی ہدایات دی ہیں اور نہ ہی وہ اپنے موقف سے پیچھے ہٹنے کو تیار ہیں۔
کچھ تجزیہ کار تو یہ سمجھتے ہیں کہ مریم نواز جان بوجھ کر پیپلز پارٹی کو وقتا فوقتا کھینچتی ہیں تاکہ ان کے چچا شہباز شریف کی حکومت کے لیے مشکلات پیدا ہوتی رہیں۔ یاد رہے کہ جب سے مریم نواز پنجاب کی وزیراعلی بنی ہیں انہوں نے کبھی چچا شہباز سے حکومتی معاملات پر مشورہ نہیں لیا۔ ویسے بھی اب پنجاب شہباز شریف کے لیے نو گو ایریا بن چکا ہے جہاں انکی ایک نہیں چلتی۔ مریم نواز کے سندھ مخالف بیانات کے بعد شہباز شریف نے خاموشی اختیار کر رکھی ہے جبکہ پیپلز پارٹی نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے قومی اسمبلی سے واک آؤٹ کرتے ہوئے یہ دھمکی دی کہ اگر مریم نواز نے اپنا رویہ نہ بدلا تو پیپلز پارٹی حکومتی اتحاد سے علیحدہ ہو جائے گی۔
یاد رہے کہ چند روز قبل مریم نواز نے ایک تقریب سے خطاب کے دوران کہا کہ پہلے میں چپ رہی ، بجلی کے بلوں پر اعتراض کیا گیا ، نہروں کا مسئلہ بنایا گیا اور اب سیلاب زدگان کی مدد کو مسئلہ بنایا جا رہا ہے، انہوں نے کہا کہ پنجاب پر انگلی اٹھانے والوں کی انگلی توڑ دی جائے گی، انہوں نے پیپلز پارٹی کو واضح پیغام دیا کہ پنجاب نے آپ کے معاملات میں کبھی مداخلت نہیں کی پنجاب کے معاملات میں ٹانگ نہ اڑائی جائے، پیپلز پارٹی کے سینئر رہنماؤں نے مریم نواز کی تقریر کو نفرت انگیز اور تقسیم پیدا کرنے والی تقریر قرار دیا۔
ادھر مسلم لیگ کو اعتراض ہے کہ آئینی عہدے لینے کے باوجود پیپلزپارٹی حکومتی پالیسیوں پر تنقید کرتے ہے۔ مریم نواز کو بڑا اعتراض یہ ہے کہ پیپلزپارٹی سوا سات ارب روپے کے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کا اکیلے کریڈٹ لیتی ہے حالانکہ اسے وفاق قرض لے کر چلانا ہے، مریم نواز کو بلاول بھٹو کے اس مطالبے سے بھی تکلیف تھی کہ پنجاب کے سیلاب متاثرین کی امداد بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ذریعے کی جائے۔
چنانچہ مریم نے پیپلز پارٹی کو جواب دیا کہ ہر چیز کا علاج بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں نہیں، مریم نے نہروں کے معاملے پر بھی پیپلز پارٹی کو آڑے ہاتھوں لیا اور کہا کہ پنجاب کا اپنا پانی ہے، ہمارے نہریں نکالنے پر آپ کو اعتراض کیوں ہے؟ وزیر اعلیٰ نے کہا کہ میرا پانی، میرا صوبہ اور میرے وسائل ہیں بھلا پیپلز پارٹی کو اس سے کیا مسئلہ ہے؟ پیپلز پارٹی نے قومی اسمبلی کے فلور آف دی ہاؤس پر مریم نواز کے بیانات پر سخت ترین رد عمل دیتے ہوئے اسے فرعونی رویہ قرار دیا ہے۔
بتایا جا رہا ہے کہ جیسے ہی آصف زرداری دبئی سے پاکستان واپس آئیں گے، وہ وزیراعظم شہباز شریف اور بلاول بھٹو کے ساتھ مل کر یہ معاملہ ٹھنڈا کرنے کی کوشش کریں گے۔ لیکن ایک بات طے ہے کہ یہ دونوں جماعتیں حکومتی اتحاد سے علیحدگی کا رسک لینے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔
