کشمیر پر غیر محتاط بیان، خواجہ آصف کا وزارت سے چھٹی کا امکان

سینیئر صحافی اور اینکر پرسن سہیل وڑائچ نے وزیر دفاع خواجہ محمد آصف سیالکوٹی کو اپنے وقت کا سب سے طاقتور اور پڑھا لکھا حاکم قرار دیتے ہوئے ان سے ہاتھ جوڑ کر منت کی ہے کہ وہ خارجہ امور پر بیان بازی سے پرہیز کریں اور اپنے عالمانہ خیالات کو اپنی ذات تک محدود رکھیں تاکہ ان کی سیاست اور وزارت بچی رہیں۔
روزنامہ جنگ کے لیے اپنی تازہ تحریر میں سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ خواجہ صاحب کتابیں پڑھنے والے گنے چنے سیاستدانوں میں شامل ہیں، وہ غیر معمولی طور پر ذہین ہیں، زمانے کی اونچ نیچ ان سے زیادہ کوئی نہیں جانتا۔ خواجہ صاحب اقتدار میں ہوں یا زوال میں، ان کے اثر رسوخ میں اضافہ ہی ہوتا رہتا ہے، جنرل قمر جاوید باجوہ سے بھی ان کا مسلسل رابطہ تھا اور اب بھی افواج پاکستان کی سیاسی سربراہی وزارت دفاع کی صورت میں ان کے پاس موجود ہے۔ وہ ہنرمند اس قدر ہیں کہ نون لیگ پورے پنجاب میں ہار بھی رہی ہو تو وہ اپنی جیت ممکن بنا لیتے ہیں۔ وہ طاقتور اتنے ہیں کہ رات گئے جنرل باجوہ کو نیند سے جگا کر اپنا الیکشن رزلٹ ٹھیک کروا سکتے ہیں، غرضیکہ وہ ہر طرح سے کامیاب سیاست دان ہیں۔
سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ جب سے خواجہ صاحب بینکاری چھوڑ کر سیاست کاری میں آئے ہیں انہوں نے نازنین ِسیاست کو یوں سے گلے لگایا ہے کہ وہ انکی محبوبہ بن چکی ہے، اس محبوبہ کو انہوں نے بار بار فتح کر کے ثابت کیا ہے کہ اس میدان میں کوئی ان کا ثانی نہیں ہے۔ خواجہ صاحب فرنٹ فٹ پر کھیلنے والے جارحانہ کھلاڑی ہیں، اگر انہیں کوئی کمزور گیند مل جائے تو وہ دھڑلے سے چھکا مار دیتے ہیں، وہ اپنے سیاسی مخالفین کو فقرے بازی سے ننگا کر دینے کے ماہر ہیں۔ اپنی پیرانہ سالی کے باوجود خواجہ آصف آج بھی جس دیدہ دلیری سے نہر کے اونچے پل سے چھلانگ لگا کر تیراکی کرتے ہیں، یہ بہادری ان کی سیاست میں بھی صاف نظر آتی ہے ۔
سہیل وڑائچ کے بقول خواجہ آصف ہر ہنر کے مرد میدان ہوں گے، لیکن سفارت کاری انکے بس کا کام نہیں۔ جس طرح جھلے شاہ کو کبھی عقل کی کوئہ بات نہیں سوجھتی، اسی طرح خواجہ صاحب جب بھی بین الاقوامی امور پر لب کشائی کرتے ہیں، بیرونی دنیا کا کوئی نہ کوئی کنگرا ڈھانے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن کنگرا تو کیا گرنا یے، پاکستان کے بارے میں ضرور سوال اٹھ جاتا ہے کہ اس کا وزیر دفاع آخر کیسے غیر ذمہ دارانہ بیانات دے رہا ہے۔بین الاقوامی سفارتکاری،سیاست کا ٹی 20 میچ نہیں ہوتا کہ بیٹسمین چوکے اور چھکے لگا کر پویلین کو واپس لوٹ جائیں۔ یہ ٹیسٹ کرکٹ جیسا صبر آزما کھیل ہے جس میں ہر لفظ، فقرے اور بیان کے معنی نکالے جاتے ہیں۔
سینیئر اینکر پرسن کہتے ہیں کہ خواجہ آصف نے حالیہ دنوں میں تب بالکل غلط وقت پر امریکہ کو دہشت گردی کا ذمہ دار قرار دیدیا جبکہ وہ انڈیا کے مقابلے میں پاکستان کی بھرپور حمایت کر رہا تھا۔ انہیں یاد رکھنا چاہیے تھا کہ تاریخ میں پہلی بار امریکہ نے بھارت کو ناراض کرکے پاکستان کا ساتھ دیا ہے، ہر بات کہنے کا ایک وقت ہوتا ہے، خواجہ صاحب کا بیان کسی صورت مناسب نہیں تھا۔ یہ بالکل اسی طرح ہے کہ بارات میں پہنچ کر کوئی شخص آہ وزاری شروع کر دے۔ ابھی خواجہ صاحب کے پہلے بیان کے مضمرات ختم نہیں ہوئے تھے کہ موصوف نے وکٹ سے باہر نکل کر یہ غیر ذمہ دارانہ بیان ٹھوک دیا کہ پاک بھارت شملہ معاہدہ ختم ہو چکا اور ہم انڈیا کے ساتھ 1948 کے سٹیٹس پر پہنچ گئے ہیں۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ بھارت سے گزشتہ 75سال میں جو بھی بات طے ہوئی ہے وہ ختم ہو گئی ہے۔ ابھی اس عجیب بیان پر قیاس آرائیاں شروع ہونی تھیں کہ وزارت خارجہ نے فوراً ہی اسکی تردید کر دی، یوں حکومت پاکستان نے خواجہ صاحب کے بیان سے لا تعلقی کا اعلان کرکے اپنی سرکاری پالیسی بتا دی۔ سینیئر صحافی کا کہنا ہے کہ محترم خواجہ صاحب کا اصل میدان سیاست کا ہے، ان کو چاہیے کہ وہ اسی میں ڈنکے بجائیں اور سفارتکاری پر طبع آزمائی نہ کریں، ویسے بھی ان کے پاس وفاقی وزیر دفاع کا حساس ترین منصب ہے، لہذا دوسرے ممالک کے بارے میں انکے ریمارکس پر ردعمل لازمی آئے گا۔ بہتر ہو گا کہ خواجہ صاحب وزارت دفاع کو کسی اور کے حوالے کرکے وزارت سیاست یا وزارت بیانات لے لیں کیونکہ وہ انکے مزاج کے عین مطابق ہے اور اس سے کوئی پیچیدگی پیدا ہونے کا خدشہ بھی نہیں ہوگا۔
سہیل وڑائچ کا کہنا ہے کہ خواجہ آصف کو سیاست اپنے والد خواجہ صفدر سے وراثت میں ملی ہے۔ خواجہ صفدر کونسل مسلم لیگی تھے یعنی وہ ممتاز دولتانہ کی سیاست کے مداح تھے، انہوں نے جنرل ایوب خان کی کنونشن مسلم لیگ میں شامل نہ ہو کر اصولوں کی سیاست کی تھی، اس زمانے میں کونسل مسلم لیگیوں کو اصول پسند سیاست دان سمجھا جاتا تھا۔ تاہم 1977 کے فوجی مارشل لا اور بھٹو حکومت کے خاتمے کے بعد خواجہ صفدر بھی جنرل ضیاء الحق کے ساتھی بن گئے۔ ضیا دور کی مجلس شوریٰ کے سپیکر بن کر انہوں نے اپنی جمہوری جدوجہد پر پوری طرح پانی پھیردیا۔ لیکن خواجہ آصف کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ انہوں نے اپنے والد خواجہ صفدر کی اس سیاسی غلطی کی سرعام پارلیمان میں معافی مانگی۔ خواجہ آصف نے جہاں اپنے والد کی سیاست سے اختلاف کیا وہیں وہ اپنے والد کی شخصیت اور ان کے آہنگ سے بھی قدرے مختلف ہیں۔خواجہ صفدر دھیمے لہجے کے سیاست دان تھے جبکہ خواجہ آصف بلند آہنگ کے سیاست دان ہیں، ان کے فقرے کی کاٹ بہت دور تک جاتی ہے، مگر یہ کاٹ اندرون ملک ہی رہے تو بہتر ہے، بیرونی دنیا میں یہ کاٹ کہیں ہمارے تعلقات کو ہی نہ کاٹ دے۔
سہیل وڑائچ کے مطابق حکمرانوں اور اہل سیاست کو یہ یاد رکھنا چاہئے کہ جنگ ہو یا امن، بیرونی دنیا کے بارے میں بیانات اور اپنے خیالات کا بہت سوچ سمجھ کر اظہار کرنا چاہئے۔ ایک وفاقی وزیر صرف سیاست کا نمائندہ نہیں ہوتا کہ اسے اندرونی لڑائی کاایک فریق سمجھ کر بیرونی دنیا نظر انداز کر دے، وہ حکومت اور ریاست کا نمائندہ ہوتا ہے، اسکے ہر فقرے کا مطلب نکالا جاتا ہے۔ یہ بھی مدنظر رہے کہ نہ تو ہر سیاستدان بہترین سفارتکار ہوتا ہے اور نہ ہی ہر سفارت کار بہترین سیاست دان بن سکتا ہے۔ ان شعبوں کی الگ الگ مہارت ہے لہٰذا بہتر یہی ہے کہ انجانے شعبے میں جاکر زور آزمائی نہ کی جائے کیونکہ غیر ذمہ دارانہ بیانات سے پوری ریاست آزمائش میں پڑ سکتی ہے۔