خیبر پختونخواہ PTI کے مفروروں کی پناہ گاہ بن گیا

پاکستان تحریک انصاف کی قیادت اور کارکنان کے لیے خیبر پختونخوا اب محض ایک صوبہ نہیں رہا، بلکہ ریاست کی آنکھوں سے اوجھل ایک نیا "علاقہ غیر” بن چکا ہے۔ جہاں 9 مئی کے مجرمان، سیاسی اشتہاری اور عدالتی مفرور، پی ٹی آئی کے پرچم تلے آزادی سے گھومتے نظر آتے ہیں۔

یادر ہے کہ چند دہائیوں قبل جب خیبر پختونخوا صوبہ سرحد کہلاتا تھا تو اس کے بعض حصوں کو اس لئے علاقہ غیر کہا جاتا تھا کہ ملک بھر کے جرائم پیشہ، قاتل اور سزا یافتہ مجرم قانون کی گرفت سے بچنے کے لئے اس علاقہ غیر میں پناہ لیا کرتے تھے تاہم اب گنڈاپور سرکار نے پارٹی اشتہاریوں کو پناہ دے کر پورے صوبہ خیبرپختونخوا کو ہی علاقہ غیر بنا دیا ہے۔ نہ صرف 9 مئی واقعہ میں سزا یافتہ بیشتر مجرموں نے صوبہ خیبر پختونخواہ میں پناہ لے رکھی ہے بلکہ مختلف مقدمات میں مطلوب تحریک انصاف کے دیگر رہنماؤں اور عہدیداران نے بھی پشاور اور صوبے کے دوسرے علاقوں میں ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ اسی وجہ سے سانحہ 9 مئی میں ملوث پی ٹی آئی کے متعدد رہنماؤں اور کارکنوں کو فوجی اور انسدادِ دہشت گردی عدالتوں سے قیدِ با مشقت اور نااہلی کی سزائیں مل چکی ہیں۔ مگر ان کی "عملی گرفتاری” کا کہیں وجود نظر نہیں آتا۔ حکومتی سرپرستی میں یہ سب یا تو پشاور کے آرام دہ بنگلوں میں چھپے بیٹھے ہیں، یا پھر کالام، گلیات، ہنتھیا گلی، ڈونگا گلی، ایبٹ آباد اور کمراٹ جیسے سیاحتی مقامات پر موسم سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور خود بھی عدالتوں کو مطلوب ہیں۔ فیض آباد اور 26 نومبر کے احتجاجی کیسز میں ان کے خلاف وارنٹ جاری ہو چکے ہیں، مگر وہ نہ صرف حکومتی مراعات کا لطف اٹھا رہے ہیں بلکہ ایک "مفرور ریاست” کے والی بھی بنے بیٹھے ہیں۔ تاہم یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب ایک صوبے کا وزیر اعلیٰ خود اشتہاری ہو، تو اس صوبے کی حدود قانون کے دائرے میں کیسے آ سکتی ہیں؟

عمران کی احتجاجی سیاست نےPTIکوکیسے تباہ کیاہے؟

 

ناقدین کے مطابق عدالتیں اپنا کام کر رہی ہیں۔ گزشتہ دسمبر میں فوجی عدالتوں نے، اور پھر جولائی میں انسداد دہشت گردی کی عدالتوں نے، درجنوں پی ٹی آئی رہنماؤں کو سزائیں سنائیں تاہم پی ٹی آئی رہنماؤں کو گرفتاری سے بچانے کے لیے جو "سیاسی چھتری” درکار تھی، وہ خیبر پختونخوا نے فراہم کر دی۔

شیخ وقاص اکرم جیسے رہنما تو اتنے دلیر نکلے کہ مسلسل چالیس دن اسمبلی سے غائب رہنے کے باوجود پشاور میں دندناتے پھر رہے ہیں، اور اپنی نااہلی کے نوٹس تک کو خاطر میں نہیں لا رہے۔ اسد قیصر، حماد اظہر، فیصل جاوید، اور دیگر کئی پی ٹی آئی رہنماؤں کے نام بھی عدالتی مفروروں کی فہرست میں شامل ہیں، لیکن عملی طور پر قانون گنڈاپور سرکار کی سرپرستی کی وجہ سے ان سب کو گرفتار کرنے میں بے بس نظر آتا ہے۔پشاور ہائی کورٹ کی جانب سے سینیٹر شبلی فراز اور زرتاج گل کو دی گئی حفاظتی ضمانتیں اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہیں کہ خیبر پختونخوا کی عدالتیں اور حکومت، پی ٹی آئی قیادت کو نہ صرف تحفظ دے رہی ہیں بلکہ فرار کے لیے قانونی راستے بھی کھول رہی ہیں۔

مبصرین کے مطابق اس وقت صورتحال اس قدر مضحکہ خیز ہو چکی ہے کہ اپوزیشن لیڈر عمر ایوب نے سپریم کورٹ میں چیف جسٹس سے صرف اس لیے ملاقات سے انکار کر دیا کہ کہیں "عدالت کے احاطے میں” انہیں گرفتار نہ کر لیا جائے۔ ناقدین کے مطابق آج خیبر پختونخوا ایک صوبہ نہیں، بلکہ "ریاست کے اندر ریاست” کی عملی تصویر بن چکا ہے۔ جہاں آئین معطل نہیں تو کم از کم معذور ضرور ہے، جہاں عدالتیں محض عارضی ضمانتوں کی فیکٹریاں بن چکی ہیں، جبکہ خیبرپختونخوا میں سیاسی اشتہاریوں نے اپنا ایک نیا "پناہ گزین کیمپ” قائم کر لیا ہے۔یہ وہ علاقہ غیر ہے، جسے اب قانون سے زیادہ سیاسی مصلحتوں نے غیر کر رکھا ہے۔

Back to top button