دنیا کے وہ مقامات جہاں مرنے پر پابندی عائد ہے؟

عام طور پر کسی جرم کی سخت ترین سزا سزائے موت ہوتی ہے مگر اس وقت کیا ہو جب موت کو ہی جرم قرار دے دیا جائے؟ یقین کرنا مشکل ہوگا مگر دنیا کے کچھ حصے ایسے ہیں جہاں کے حکام نے رہائشیوں کے مرنے کو غیر قانونی قرار دیا مگر اس کی سزا کیا ہے؟ درحقیقت کوئی سزا نہیں کیونکہ جو فرد دنیا سے گزر جائے اسے کیا سزا دی جا سکتی ہے۔
مگر ان جگہوں پر لوگوں کی موت کو غیر قانونی قرار دینے کی وجوہات کیا تھیں اور کیا اب بھی وہاں پابندی برقرار ہے یا نہیں؟ اس بارے میں آپ ان مقامات کی تفصیلات کے ساتھ جان لیں گے جن کی حدود میں مرنے کی اجازت دینے سے انکار کیا گیا۔
اگست 2015 میں جنوبی اٹلی کے اس قصبے کے میئر نے حکم جاری کیا تھا کہ یہاں کے رہائشیوں کو بیمار ہونے اور مرنے کی اجازت نہیں، چند سو افراد کی آبادی پر مشتمل اس قصبے میں زیادہ تر کی عمر 65 سال سے زائد ہے اور میئر کے مطابق ان کی موت درحقیقت قصبے کی ہلاکت ہے۔
موت پر پابندی کی ایک وجہ قبرستان میں جگہ کی کمی اور زیر زمین پانی کی بلند ہوتی سطح بھی تھی، جو جگہ دستیاب تھی وہ ایک فوجی ائیر بیس کے قریب تھی اور وہاں وزارت دفاع نے تدفین کی اجازت دینے سے انکار کر دیا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مقامی عدالت نے میئر کو قبرستان میں توسیع کی اجازت نہیں دی جبکہ مرنے کو غیر قانونی قرار دینے کے حکم کے خلاف بھی فیصلہ سنایا، جس پر مقامی افراد بھی میئر کے ساتھ ہوگئے۔
اس فہرست میں دوسرا ملک سائو پولو ہے، 2005 میں مقامی قبرستان میں جگہ ختم ہونے پر اس قصبے کے میئر نے مرنے پر پابندی عائد کی۔ساؤ پاؤلو کے قریب واقع اس قصبے کے قبرستان میں 50 ہزار قبروں کی گنجائش ختم ہونے کے بعد میئر نے یہ قانون نافذ کیا۔
اس قانون کا مقصد نئے قبرستان کی تعمیر کی اجازت نہ دینے پر وفاقی حکومت کے خلاف احتجاج کرنا تھا چونکہ یہ قصبہ زراعت کے حوالے سے معروف ہے تو ماحولیاتی قوانین کو جواز بنا کر نئے قبرستان کی تعمیر روکی گئی۔موت پر پابندی کے قانون کی خلاف ورزی پر سزا دینے کا تو کہا گیا مگر یہ نہیں بتایا گیا کہ سزا کیا ہوگی، ویسے وہاں 2010 میں نیا قبرستان تیار ہوگیا تھا تو بظاہر اب وہاں لوگوں کو مرنے کی اجازت ہے، مگر کب تک یہ کہنا مشکل ہے۔
فہرست میں تیسرا مقام جنوبی سپین کا ایک قصبہ ہے، اس قصبے میں 1999 میں حکام نے قبروں کے لیے جگہ نہ ہونے پر رہائشیوں کے مرنے پر اس وقت تک پابندی عائد کر دی جب تک نئے قبرستان کے لیے جگہ نہیں مل جاتی۔اس حکم نامے میں رہائشیوں کو کہا گیا تھا کہ وہ اپنی صحت کا بہت زیادہ خیال رکھیں تاکہ وہ قبرستان کے لیے زمین خریدنے تک زندہ رہ سکیں۔
ناروے کے قصبے لانگایربین میں 2 ہزار کے قریب افراد مقیم ہیں اور یہاں قبرستان بھی ہے مگر اسے دہائیوں سے استعمال نہیں کیا گیا،1950 میں یہ انکشاف ہوا تھا کہ قبرستان میں دفن شدہ لاشیں ڈی کمپوز نہیں ہو رہیں۔
یہاں کا موسم بہت سرد ہوتا ہے اور عموماً برف جمی رہتی ہے جس کے باعث وہاں دفن لاشوں میں کوئی تبدیلی نہیں آتی، جس سے جان لیوا جراثیم پھیلنے کا خطرہ بڑھتا ہے۔ جراثیموں کو پھیلنے سے روکنے کے لیے وہاں 1950 میں لوگوں کے مرنے پر پابندی عائد کی گئی اور قریب المرگ افراد کو ناروے کے مختلف حصوں میں منتقل کیا جاتا ہے۔
جاپان میں ہیرو شیما کے ساحلی علاقے میں واقع ایک جزیرہ Itsukushima بھی ایسی ہی پابندیوں کا شکار رہا ہے، جہاں 8 ویں صدی میں ایک عبادت گاہ تعمیر کی گئی جس کے بعد اسے مقدس مقام قرار دے دیا گیا، صدیوں تک وہاں لوگوں کو داخل ہونے کی بھی اجازت نہیں تھی مگر اب 2 ہزار کے قریب افراد وہاں رہائش پذیر ہیں۔

19 ویں صدی کے آخر میں وہاں لوگوں کے مرنے پر پابندی عائد کی گئی اور اب قریب المرگ افراد کو قریبی جزائر میں منتقل کیا جاتا ہے، اس جگہ کوئی قبرستان یا ہسپتال موجود نہیں۔

نواب آف کالا باغ اور ایوب خان کی راہیں کیسے جُدا ہوئیں؟

Related Articles

Back to top button