گنڈاپورسرکارپرمولاناڈیزل کےسنگین الزامات،چارج شیٹ جاری

ماضی قریب میں پاکستان تحریک انصاف کے شیر وشکر ہونے والے مولانا فضل الرحمٰن پی ٹی آئی کے انجام سے عبرت حاصل کرتے ہوئے دوسری صف میں کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔ انتہا تو یہ ہے کہ اب مولانا فضل الرحمن نے اے این پی کی کل جماعتی کانفرنس میں خیبر پختونخوا حکومت کے خلاف سنگین الزامات پر مبنی باقاعدہ چارج شیٹ بھی جاری کردی ہے،مولانا نے الزام لگایا ہے کہ خیبرپختونخوا کے قبائلی علاقے مسلح گروہوں کے قبضے میں ہیں۔ صوبے کے سرکاری فنڈز کا دس فیصد حصہ غیر ریاستی مسلح گروہوں کو دیا جاتا ہے۔ مبصرین کے مطابق جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے آل پارٹیز کانفرنس میں خیبر پختونخوا حکومت کے خلاف سنگین چارج شیٹ پیش کرتے ہوئے نہ صرف صوبائی انتظامیہ کی ساکھ پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے بلکہ حکمران طبقے کی ناکامیوں کا بھی پردہ چاک کردیا ہے۔ ناقدین کے مطابق صوبے کے سرکاری فنڈز کا دس فیصد حصہ مسلح گروہوں کو دینے کا الزام خیبر پختونخوا حکومت کو گورننس کی بدترین مثال ہے۔ اگر صوبائی حکومت ہی دہشتگردوں کو بھتہ دینے پر مجبور ہے اور قبائلی علاقے غیر ریاستی عناصر کے کنٹرول میں ہیں تو پھر سوال اٹھتا ہے کہ خیبر پختونخوا حکومت کی آئینی و انتظامی رٹ کہاں ہے؟
مبصرین کے مطابق مولانا فضل الرحمٰن کا یہ صرف ایک الزام نہیں بلکہ ایک ایسی فردِ جرم ہے جو حکمران جماعت کی نااہلی، بدانتظامی اور ریاستی ذمہ داریوں سے غفلت کو بے نقاب کرتی ہے۔ سات سال بعد بھی اگر قبائلی اضلاع میں جرگہ نظام بحال کرنے کی ضرورت پیش آ رہی ہے تو یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ صوبائی حکومت انضمام کے وعدوں کو پورا کرنے میں بری طرح ناکام ہو چکی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ خیبر پختونخوا حکومت نے اپنی ناقص کارکردگی سے نہ صرف عوام کے اعتماد کو ٹھیس پہنچائی ہے بلکہ پورے وفاقی ڈھانچے کو کمزور کرنے میں بھی کردار ادا کیا ہے۔
خیال رہے کہ قبائلی علاقوں کی حالیہ صورتحال اور فوجی آپریشن کے حوالے اے اے این پی کے زیر اہتمام اسلام آباد میں آل پارٹیز کانفرنس منعقد ہوئی تھی۔ آل پارٹیز کانفرنس میں مختلف سیاسی جماعتوں کے نمائندے تو شریک ہوئے، تاہم بڑے رہنماؤں کی غیر حاضری نے اس اجلاس کی اہمیت کو کم کر دیا۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کے مندوبین اعلامیہ کے اجرا سے قبل ہی کانفرنس چھوڑ گئے، تحریک انصاف کے چیئرمین بیرسٹر گوہر خان نے شرکت کا وعدہ کیا مگر وہ بھی شریک نہ ہوئے۔ یوں یہ اجلاس مولانا فضل الرحمٰن اور چند دیگر جماعتوں کے لیے سیاسی پلیٹ فارم تو بن گیا مگر اس حوالے سے ایک متحدہ قومی موقف سامنے نہ آ سکا۔
آل پارٹیز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ خیبر پختونخوا کے قبائلی علاقے مسلح گروہوں کے قبضے میں ہیں اور عوام ان کو بھتہ دینے پر مجبور ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ صوبے کے فنڈز کا دس فیصد حصہ براہِ راست ان گروہوں کو دیا جاتا ہے، جو ایک کھلی بدعنوانی اور حکومتی رٹ کی ناکامی ہے۔ مولانا نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ اگر انضمام کے بعد بھی جرگہ نظام بحال کرنا پڑ رہا ہے تو پھر سات سالہ اصلاحات اور وعدے کہاں گئے؟
سیاسی مبصرین کے مطابق مولانا فضل الرحمٰن کے الزامات اگر درست ہیں تو یہ خیبر پختونخوا حکومت کے خلاف ایک آئینی چارج شیٹ ہے جسے نظر انداز کرنا قومی سلامتی کے لیے خطرناک ہوگا۔ صوبے کے فنڈز کا مسلح گروہوں تک پہنچنا اس بات کا ثبوت ہے کہ حکومت مکمل طور پر غیر مؤثر ہو چکی ہے اور اگر اس پر فوری کارروائی نہ ہوئی تو ریاستی ڈھانچہ مزید کمزور ہو جائے گا۔کچھ تجزیہ کاروں نے یہ خدشہ بھی ظاہر کیا کہ اگر اس مسئلے پر سنجیدگی سے تحقیقات نہ ہوئیں تو خیبر پختونخوا میں بدامنی مزید بڑھ سکتی ہے اور یہ خطرہ وفاق تک پھیل سکتا ہے۔ مبصرین کے بقول اگر صوبائی حکومت واقعی اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے سے قاصر ہے تو آئین کے تحت اس کی برطرفی ناگزیر ہو جائے گی۔
ان کا مزید کہنا ہے کہ خیبر پختونخوا حکومت کے خلاف مولانا فضل الرحمٰن کی چارج شیٹ محض ایک سیاسی بیان نہیں بلکہ ایک آئینی بحران کی دستک ہے۔ صوبائی حکومت کی ناکامی نے نہ صرف عوام کو بے سہارا چھوڑا ہے بلکہ وفاقی اکائیوں کے اعتماد کو بھی شدید نقصان پہنچایا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا سیاسی جماعتیں اس حقیقت کا سامنا کریں گی یا پھر حسبِ روایت مصلحت کا شکار ہو کر خاموش رہیں گی؟ اگر خیبر پختونخوا حکومت کے خلاف یہ الزامات درست نکلتے ہیں اور پھر بھی اس پر کوئی کارروائی نہیں ہوتی تو یہ پاکستان کی سیاسی تاریخ کا ایک اور سیاہ باب ثابت ہوگا۔ ریاست کو یہ طے کرنا ہے کہ وہ اپنے شہریوں کے ساتھ کھڑی ہے یا ان طاقتور گروہوں کے ساتھ جو اس کے وجود کو کمزور کر رہے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن کا یہ الزام کہ قبائلی علاقے مسلح گروہوں کے قبضے میں ہیں اور عوام بھتہ دینے پر مجبور ہیں، خود اس ریاستی نظام کے خلاف ایک فردِ جرم ہے جو برسوں سے دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑنے کا دعویٰ کرتا آیا ہے۔
