کونسے 40ارب پتی خاندان پاکستانی معیشت چلارہے ہیں؟

پاکستان کے معاشی مستقبل کا فیصلہ کرنے والے 40ارب پتی گروپ سامنے آ گئے۔ اکنامک پالیسی اینڈ بزنس ڈویلپمنٹ تھنک ٹینک نے پاکستان کے 40 بڑے بزنس گروپس کی تازہ فہرست جاری کر دی ہے رپورٹ کے مطابق فوجی فاؤنڈیشن 5 ارب 90 کروڑ ڈالر مارکیٹ کیپ کے ساتھ ملک کا سب سے بڑا بزنس گروپ قرار پایا ہے جبکہ انور پرویز کا بیسٹ وے گروپ 4 ارب 51 کروڑ ڈالر کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہے۔ اس فہرست میں محمد علی ٹبہ، میاں منشا، حسین داؤد سمیت وہ تمام کاروباری شخصیات شامل ہیں جنہیں پاکستانی معیشت کی "ریڑھ کی ہڈی” قرار دیا جا رہا ہے۔
رپورٹ کے مطابق پبلک لسٹڈ گروپس میں سب سے آگے فوجی فاؤنڈیشن ہے جس کی مارکیٹ ویلیو تقریباً 6 ارب ڈالر کے قریب ہے۔ دوسرے نمبر پر بیسٹ وے گروپ اور تیسرے پر ٹبہ گروپ ہیں، جبکہ میاں منشا اور حسین داؤد بالترتیب چوتھے اور پانچویں نمبر پر ہیں۔ یہ کمپنیاں صرف منافع کمانے میں ہی نہیں بلکہ مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری کے ذریعے ملکی معیشت کو سہارا دینے کے ساتھ ساتھ لاکھوں افراد کیلئے روزگار کے مواقع بھی پیدا کر رہے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان کے 20 بڑے پرائیویٹ بزنس گروپس کی فہرست میں سب سے اوپر سید بابر علی ہیں۔ ان کے ساتھ ساتھ عقیل کریم ڈھیڈی، میاں عامر محمود، جہانگیر ترین، نسرین محمود قصوری اور دیگر نمایاں کاروباری شخصیات شامل ہیں۔ یہ وہ سرمایہ دار طبقہ ہے جس نے اپنی کاروباری بصیرت کے ذریعے نہ صرف مقامی سطح پر کامیابی حاصل کی بلکہ عالمی منڈیوں میں بھی اپنا لوہا منوایا۔
معاشی تجزیہ کاروں کے مطابق فہرست میں سامنے آنے والے 40 گروپس لاکھوں افراد کے لیے روزگار پیدا کر رہے ہیں اور اگر حکومت پالیسی سپورٹ فراہم کرے تو یہ ملک کو ایشیائی ٹائیگر بنانے میں کردار ادا کر سکتے ہیں۔بزنس کمیونٹی کا ماننا ہے کہ حکومت کوسخت قوانین اور غیر یقینی پالیسیوں کی بجائے سرمایہ دار طبقے کے لیے کاروباری آسانیاں پیدا کرنی ہوں گی، ملک کو ایسے مزید گروپس کی ضرورت ہے کیونکہ یہی وہ کمپنیاں ہیں جو پاکستان کو ترقی کی راہ پر ڈال سکتی ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ دیرپا معاشی پالیسیوں کے بغیر ترقی ممکن نہیں۔ سیاسی تبدیلیوں سے معاشی پالیسیوں کو متاثر نہیں ہونا چاہیے۔ مبصرین اس بات پرمتفق ہیں کہ مستقبل کا انحصار صرف بڑے سرمایہ داروں پر نہیں بلکہ ایک ایسی پالیسی پر ہے جو چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباروں کو بھی آگے بڑھنے کا موقع دے۔ بصورت دیگر پاکستان کی معیشت کا مستقبل چند ہاتھوں میں سمٹ جائے گا، جو کسی بھی ملک کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔
دوسری جانب سینیئر اینکر پرسن اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ کا کہنا ہے کہ پاکستانی عوام ملک کے بڑے ارب پتی خاندانوں سے نفرت کرتے ہیں حالانکہ یہی خاندان پاکستان کی سب سے بڑی امید ہیں، ان کا کہنا ہے کہ ان امرا کو چور چور کی آوازیں لگائی جاتی ہیں، لہذا خدشہ ہے کہ یہ ارب پتی بھی پاکستان سے اُڈاری مار کر ان سبز چرا گاہوں میں نہ جا بسیں جہاں ان کو چور کہنے کی بجائے سر آنکھوں پر بٹھایا جائے گا۔
سہیل وڑائچ مزید کہتے ہیں کہ ہم پاکستانی ابھی تک فرانسیسی ناول نگار بالزاک کے عہد میں جی رہے ہیں۔ بالزاک نے 183 میں لکھا تھا کہ ’’ہر بڑے سرمائے کے پیچھے جُرم ہوتا ہے‘‘۔ یہی وُہ سوچ تھی جس نے پاکستانی سپریم کورٹ کے ججوں تک کو اس افسانوی فقرے کا سہارا لیکر عدالتی فیصلے لکھنے کی تحریک دی تھی۔ اس ذہنیت نے لوگوں میں ہر دولت مند کے خلاف بغض و عناد کا زہر بھر رکھا ہے۔ ہر بڑی گاڑی اور بڑے گھر کے بارے میں عمومی رائے یہی ہوتی ہے کہ اس امیرانہ علامت میں کہیں نہ کہیں ہمارا خون شامل ہے۔
سینیئر صحافی کا کہنا ہے کہ یہ سوچ کمیونزم کے نظریے سے مطابقت رکھتی تھی اب جبکہ عملی طور پر کمیونزم کا کہیں وجود نظر نہیں آتا، بائیں بازو کی سوچ اب سوشلزم کی شکل میں زندہ ہے، مگر چینی سوشلزم میں امیروں، دولت مندوں اور سرمایہ داروں کو نفرت اور حسدِ کی نظر سے نہیں بلکہ رشک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ دوسری جانب پاکستان میں ابھی تک وہی حال ہے۔ حادثہ ہو جائے تو ہر کوئی سائیکل سوار سے ہمدردی اور کار کے مالک سے نفرت کا اظہار کرتا ہے، چاہے قصور سراسر سائیکل سوار کا ہو۔ وجہ وہی کہ’’ ہر دولت مند مجرم ہے‘‘۔ جب تک پاکستان میں یہ ذہنیت تبدیل نہیں ہوتی اس وقت تک سرمائے کی بڑھوتری اور دولت کی زیادہ پیدائش کا امکان نہیں۔ یہاں تو یہ وبا عام ہے کہ ہر افسر اٹھ کر کہہ دیتا ہے کہ سارے تاجر اور صنعتکار چور ہیں ،یہ سب ٹیکس چراتے ہیں، ان سب کو گرفتار کرکے جیلوں میں بند کر دینا چاہئے۔
سینیئر صحافی کا کہنا ہے کہ حکومت کا کام یہی ہے کہ ڈالر اور روپیہ کیلئے آسانی پیدا کرے، اور خوف کو دور کرے تاکہ کم از کم یہ ارب پتی خاندان تو اپنا سرمایہ پاکستان میں مزید پھیلائیں اور باقی دنیا کو بھی اگر باہر سے بلانا ہے تو وہ انہی کے ذریعے سے آئے گی، سہیل وڑائچ کا مزید کہنا ہے کہ پاکستان میں سرمایہ داری کی حوصلہ افزائی کے ساتھ حکومتی مسابقتی پالیسیوں کا سختی سے نفاذ بھی ضروری ہے تاکہ نئے ارب پتی اور کروڑ پتی بنیں، اور دولت کا انہی پرانے ارب پتی گھرانوں میں ارتکاز نہ ہو۔ جب صرف چند خاندان امیر ہوں اور خلقت غریب ہو تو پھر انقلاب آتا ہے اور اگر امیروں کی تعداد بڑھتی جائے اور غریبوں کی تعداد کم ہوتی جائے تو ریاست فلاحی شکل اختیار کرلیتی ہے۔
