نیتن یاہو نے غزہ جنگ بندی کیلئےمذاکراتی وفد قطر بھیجنے کی منظوری دیدی

اسرائیلی وزیرِاعظم بن یامین نیتن یاہو نے اعلان کیا ہے کہ وہ جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی سے متعلق مذاکرات کے لیے ایک وفد قطر بھیج رہے ہیں، جہاں فریقین کے درمیان براہ راست بات چیت متوقع ہے۔ یہ پیش رفت اس وقت سامنے آئی ہے جب فلسطینی تنظیم حماس نے ’فوری طور پر‘ مذاکرات شروع کرنے پر آمادگی ظاہر کی ہے۔
تاہم نیتن یاہو نے خبردار کیا ہے کہ امریکی حمایت یافتہ جنگ بندی معاہدے کے مسودے میں حماس کی جانب سے تجویز کردہ تبدیلیاں اسرائیل کے لیے ’’ناقابلِ قبول‘‘ ہیں۔
فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق اسرائیلی وزیراعظم کے دفتر سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ”قطری تجویز میں حماس کی طرف سے پیش کی گئی ترامیم سے گزشتہ رات آگاہ کیا گیا، اور یہ اسرائیل کے لیے ناقابلِ قبول ہیں۔”
بیان میں مزید کہا گیا کہ نیتن یاہو نے حالات کا جائزہ لینے کے بعد وفد کو مذاکرات میں شرکت کی ہدایت دی ہے، تاہم یہ مذاکرات اسی قطری فریم ورک کے تحت ہوں گے جسے اسرائیل پہلے ہی منظور کر چکا ہے۔ مقصد، یرغمالیوں کی واپسی کے امکانات کو مزید آگے بڑھانا ہے۔
الجزیرہ کی نامہ نگار ہمدہ سلحوٹ کے مطابق یہ پہلا موقع ہے جب نیتن یاہو نے تقریباً 21 ماہ بعد جنگ بندی سے متعلق مذاکرات میں لچک کا مظاہرہ کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ نیتن یاہو پر پہلے صرف اسرائیلی یرغمالیوں کے اہل خانہ اور یورپی اتحادیوں کی طرف سے دباؤ تھا، تاہم اب یہ دباؤ براہِ راست سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے آ رہا ہے، جس کا اثر حالیہ سیکیورٹی مشاورتوں میں نظر آ رہا ہے۔
مزید پیش رفت:
نیتن یاہو نے اعلان کیا ہے کہ وہ آج رات اپنی سیکیورٹی کابینہ اور اعلیٰ حکام کے ساتھ ایک اور مشاورت کریں گے اور کل واشنگٹن روانہ ہوں گے، جہاں وہ ٹرمپ سے ممکنہ جنگ بندی پر بات کریں گے۔
برطانیہ کا شام سے 14 سال بعد سفارتی تعلقات بحال کرنے کا اعلان
امریکی مؤقف:
امریکا کا کہنا ہے کہ اسرائیل نے ابتدائی 60 روزہ جنگ بندی کے ایک فریم ورک پر اصولی طور پر اتفاق کر لیا ہے، اور فوری طور پر جنگ بندی پر مذاکرات ممکن ہیں۔
الجزیرہ کے مطابق، نیتن یاہو اب سیکیورٹی حکام سے ایسے ممکنہ منصوبے طلب کر رہے ہیں جن کے ذریعے اسرائیل یہ جانچ سکے کہ اگر جنگ بندی کی جائے تو اس سے کیا فوائد حاصل کیے جا سکتے ہیں اور کن شرائط پر مذاکرات کو اپنے اہداف کے مطابق ڈھالا جا سکتا ہے۔