پی آئی اے کی پرائیویٹائزیشن: 100 ارب روپے کی بولی لگنے کا امکان

پچھلے برس پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز یعنی پی آئی کی نجکاری کے لیے 10 ارب کی بولی لگنے کے بعد یہ عمل معطل کر کے دوبارہ بولی لگانے کا فیصلہ کیا گیا تھا جو اس برس ایک سو ارب روپے تک پہنچنے کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔ حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ ایک سال پہلے تک پی آئی اے کی بولی میں شامل ہونے سے کترانے والے سرمایہ کار اس برس قومی ایئر لائنز کی بولی لگانے والوں میں شامل ہیں جسکی بنیادی وجہ قومی ایئر لائنز کا منافع میں چلے جانا یے۔
پاکستان انٹرنیشنل ائیر لائنز کی پرائیویٹائزیشن کے لیے اس برس نجکاری کمیشن کو پانچ پارٹیوں کی جانب سے درخواستیں موصول ہوئی ہیں۔ گذشتہ برس حکومت کی جانب سے پی آئی اے کی نجکاری کی پہلی کوشش تب ناکام ہو گئی تھی جب خریداری کے لیے صرف ایک کمپنی سامنے آئی اور صرف دس ارب روپے کی بولی لگائی۔ دوسری جانب حکومت نے پی آئی اے کی قیمت فروخت کم از کم قیمت 85 ارب روپے مقرر کی تھی۔ پچھلے برس کی ناکامی کے بعد اس سال پی آئی اے کی نجکاری کی دوسری کوشش کا آغٓاز کیا گیا۔ اسی دوران حکومت نے نجکاری کمیشن کا قلمدان علیم خان سے واپس لے کر محمد علی کو وزیر اعظم کا مشیر برائے نجکاری مقرر کر دیا۔
حکومت کی جانب سے پی آئی اے نجکاری کی دوسری کوشش کے بعد آٹھ کمپنیوں نے اسکی خریداری میں دلچسپی ظاہر کی تھی، تاہم نجکاری کمیشن کو ڈیڈ لائن ختم ہونے تک پانچ کمپنیوں کی جانب سے ہی سٹیٹمنٹ آف کوالیفکیشن موصول ہو سکیں۔ ان کمپنیوں میں لکی سیمنٹ، حب پاور، کوہاٹ سیمنٹ اور میٹرو وینچرز پر مشتمل کنسورشیم شامل ہیں۔
عارف حبیب، فاطمہ فرٹیلائزر، سٹی سکول اور لیک سٹی ہولڈنگز پر مشتمل کنسورشیم نے بھی پی آئی اے خریدنے میں دلچسپی ظاہر کی ہے۔ ایئر بلیو اور فوجی فرٹیلائزر کمپنی نے بھی اپنی سٹیٹمنٹ آف کوالیفکیشن جمع کروائی ہیں۔ اس کے علاوہ آگمنٹ سیکیورٹیز، سیرین ایئر، بحریہ فاؤنڈیشن، میگا ہولڈنگ اور ایکویٹاس نے بھی پی آئی اے کی خریداری میں مشترکہ طور پر دلچسپی ظاہر کی۔
نجکاری کمیشن نے قومی ایئرلائن کی بولی کھولنے کی تاریخ کا حتمی اعلان نہیں کیا تاہم اس عمل میں دو سے تین مہینے لگتے ہیں۔ بتایا جاتا یے کہ پی آئی اے نجکاری کی دوسری کوشش پہلی والی سے مختلف ہے۔ پچھلے سال حکومت کی جانب سے پہلی کوشش کے بعد نئے حکومتی اقدامات پر بات کرتے ہوئے نجکاری کمیشن کے ترجمان نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ یورپ کے لیے قومی ائیر لائن کی روٹس کی بحالی کے ساتھ ساتھ برطانیہ کے لیے فلائٹس کی متوقع بحالی ایسی پیشرفت ہے جو نجکاری کی دوسری کوشش کو زیادہ پُرکشش بناتی ہے۔نترجمان ڈاکٹر احسن اسحاق کا کہنا تھا کہ اس کے علاوہ ملک کی معاشی صورتحال میں بہتری آئی جس نے سرمایہ کاروں کے اعتماد کو بحال کیا اور اب حالات پی آئی اے کے لیے سازگار ہیں۔
نجکاری کمیشن کے سابق سربراہ محمد زبیر بھی کہتے ہیں کہ گذشتہ برس کی نسبت اب ملک کے حالات بہتر ہوئے ہیں جس کے سبب معاشی صورتحال میں بھی بہتری نظر آ رہی ہے۔ انھوں نے اتفاق کیا کہ یورپی اور برطانوی روٹس کی بحالی نے بھی پی آئی اے کو بہتر بنایا ’کیونکہ یہ روٹس کافی پر کشش ہیں اور ساٹھ کی دہائی سے پی آئی اے کے پاس ہیں۔‘ تاہم ایوی ایشن امور کے ماہر افسر ملک اس بات سے اتفاق نہیں کرتے۔ انھوں نے بتایا کہ 2020 میں پی آئی اے کی یورپ اور برطانیہ میں جانے پر پابندی سے پہلے ائیر لائن خسارے میں تھی۔ ویسے بھی ان روٹس پر پی آئی اے کا مقابلہ مشرق وسطیٰ کی ائیرلائنز سے ہے جو زیادہ بہتر سروس فراہم کرتی ہیں۔ یہ صرف ایک تاثر ہے ورنہ یہ پہلو پی آئی اے کی نجکاری کو زیادہ پرکشش نہیں بناتا۔ تاہم افسر ملک یہ ضرور کہتے ہیں کہ پی آئی اے کو پُر کشش بنانے کے لیے حکومت اس کے ٹیکس معاملات کو حل کر کے اسے قانونی کور دے رہی ہے جو گذشتہ سال نہیں کیا گیا تھا۔ اسی طرح گذشتہ برس کے برعکس اب حکومت نئے ائیر کرافٹس کی لیزنگ اور خریداری کے لیے سیلز ٹیکس پر چھوٹ بھی رہی ہے۔ افسر ملک نے بتایا کہ موجودہ مرحلے میں حکومت پی آئی اے کی پوری اونرشپ دینے جا رہی ہے جبکہ گذشتہ برس اس کا چالیس فیصد اپنے پاس رکھ رہی تھی۔ چنانچہ اس مرتبہ پی آئی اے کی بولی 100 ارب روپے تک لگنے کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔