پی ٹی آئی کو بچانے کیلئے عمران خان کو لگام ڈالنا ناگزیر کیوں؟
اقتدار سے بے دخلی کے بعد سے بانی پی ٹی آئی عمران خان کی سیاسی کم فہمی کی بناء پر کئے گئے جذباتی فیصلوں سے تحریک انصاف کی سیاست بند گلی میں داخل ہو چکی ہے۔ جہاں پارٹی کی مرکزی قیادت جیلوں میں بند ہے یا بلوں میں چھپی بیٹھی ہے وہیں عمرانڈو رہنماؤں پر مزید مقدمات درج کروانے کی تیاریاں بھی جاری ہیں۔ تاہم سینئیر صحافی انصار عباسی کا کہنا ہے کہ عمران خان فی الحال صرف دو کام کریں تو اُنکے اور اُنکی پارٹی کیلئے بہت کچھ بدل سکتا ہے، گزشتہ ایک ڈیڑھ سال کی سختیاں ختم ہو سکتی ہیں۔ ایک تو اُنہیں خاموشی اختیار کرنا پڑے گی یا جب بولیں تو سوچ سمجھ کر بات کریں نہ کہ غصہ میں اور نہ ہی کسی کے اشتعال دلانے یا سرگوشی پر کوئی بیان داغیں۔ دوسرا عمران خان کو اپنی پارٹی کے سوشل میڈیا، جسے وہ اپنا سب سے اہم ہتھیار سمجھتے ہیں، کو خطرناک پروپیگنڈا کرنے، جھوٹ بولنے، نفرت پھیلانے، الزامات لگانے سے باز رکھنا پڑے گا۔ تاہم سوال یہ ہے کہ کیا خان صاحب یہ دونوں کام کر سکتے ہیں؟ انصار عباسی کے بقول تاحال اس کی کوئی زیادہ امید نہیں اور اسی وجہ سے خان صاحب اور تحریک انصاف کیلئےمشکلات کم ہوتی نہیں نظر آتیں۔
انصار عباسی کے مچابق جو کچھ خان صاحب اور اُن کا سوشل میڈیا کر رہا ہے اگر یہ پالیسی جاری رہتی ہے تو سوچنے اور سمجھنے کی یہ بات ہے کہ اس کا بانی چیئرمین پی ٹی آئی اور تحریک انصاف کو کیا فائدہ ہو گا؟ پی ٹی آئی اپنی توپوں کا نشانہ خاص طور پر موجودہ آرمی چیف کو بنا کر کیا فوائد سمیٹے گی؟
سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا خان صاحب اور پی ٹی آئی کا سوشل میڈیا اپنے بیانات اور پروپیگنڈا سے وہ ’’انقلاب‘‘ ملک میں لا سکتے ہیں جس کی ایک کوشش 9 مئی کو کی گئی؟اگر کوئی سوچتا ہے کہ کوئی ایسا ’’انقلاب‘‘ اب بھی ممکن ہے تو پھر یہ سوچنا چاہیے کہ ایسے انقلاب کے نتیجے میں کیا ملک افراتفری اور خانہ جنگی کی طرف جائے گا یا یہاں سیاسی استحکام آئے گا؟
پنجاب میں صحت کے نظام میں بڑی تبدیلیاں لانے کا فیصلہ
انصار عباسی کے مطابق بلاشبہ عمران خان آج بھی ملک کے مقبول ترین رہنما ہیں۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ عمران خان جو مرضی کہیں جو مرضی کریں، اُن کے خلاف کوئی بھی سکینڈل یا کیس سامنے آجائے اُن کے ووٹرز ،سپورٹرز پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ خان صاحب کے فالورز کی مثال ایسے اندھی تقلید کرنے والوں جیسی ہے جس کا اُنکے مخالفین اور اسٹیبلشمنٹ کے پاس کوئی توڑ نہیں۔ یہ بھی درست ہے کہ حکومت میں شامل ن لیگ، پیپلز پارٹی اور دوسری سیاسی جماعتیں تو کبھی نہیں چاہیں گی کہ تحریک انصاف اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان معاملات سلجھ جائیں کیونکہ اگر ایسا ہوتا ہے تو موجودہ حکمرانوں کے اقتدار اور اُن کی سیاست کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ اس میں بھی کوئی دو رائے نہیں کہ عمران خان اور تحریک انصاف کے سوشل میڈیا کا فوج اور فوج کے سربراہ کو نشانے پر رکھنا اور اُنکے خلاف زہریلا پروپیگنڈاکرنے کی وجہ سے اگر ایک طرف عمران خان اور پی ٹی آئی کی سیاست کو مشکلات کا سامنا رہے گا تو دوسری طرف فوج کے متعلق ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت میں منفی رائے کا پایا جانا نہ ادارے کیلئے اچھا ہے نہ پاکستان کیلئے۔
انصار عباسی کے مطابق سابق صدر ڈاکٹر عارف علوی کے حوالے سے ٹی وی چینلز پر ایک بیان چل رہا تھا جس میں اُن کا کہنا تھا کہ نفرت کو ختم کیا جائے اور درگزر کی پالیسی اختیار کی جائے۔ اُنہوں نے فوج یا اسٹیبلشمنٹ کا نام لیے بغیر یہ بھی کہا کہ تحریک انصاف کے مذاکرات اصل سٹیک ہولڈرز (یعنی فوج) کے ساتھ ہی ہو سکتے ہیں۔ تاہم سوال یہ ہے کہ ڈاکٹر علوی نے جو بات کی کیا اُس پر عمران خان اور پی ٹی آئی سوشل میڈیا عمل کرے گا؟ اگر ایسا ہوتا ہے تو یہاں بہت کچھ بدل جائے گا۔اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کی سیاست اور فوج کے خلاف نفرت پیدا کرنے میں عمران خان اور تحریک انصاف کے سوشل میڈیا کا بہت بڑا کردار ہے۔اب اگر اس نفرت کو ختم کرنا ہے تواس سلسلے میں عمران خان اور پی ٹی آئی سوشل میڈیا کو پہل کرنا پڑے گی۔ اگر وہ اپنا رویہ بدلیں اور فوج مخالف پروپیگنڈا ختم کریں، اپنے سیاسی مخالفین اور تحریک انصاف اور عمران خان کی رائے سے اختلاف کرنے والوں کے خلاف گالم گلوچ ، جھوٹے الزامات اور بہتان تراشی سے گریز کریں تو پھر نہ صرف سیاسی مخالفین کے درمیان مذاکرات کے رستے کھلیں گے بلکہ اسٹیبلشمنٹ پر اس بات کا دبائو بڑھے گا کہ وہ بھی ایک قدم پیچھے ہٹتے ہوئے تحریک انصاف کے متعلق درگزر کی پالیسی اختیار کرے ۔