خود کو کالا بھونڈ کہنے والے جسٹس اطہر من اللہ چاہتے کیا ہیں؟

سپریم کورٹ کے جج جسٹس اطہر من اللہ عمران خان کی حمایت میں کھل کر سامنے آ گئے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے نہ صرف ریاست دشمن بانی پی ٹی آئی کو بھٹو جیسا بڑا لیڈر قرار دے دیا بلکہ انھیں بغیر ٹرائل کے تمام الزامات سے بھی بری کردیا۔

سپریم کورٹ کے جسٹس اطہر من اللہ نے نیب ترامیم کیس کی براہ راست نشریات کی درخواست مسترد کرنے سے متعلق 13 صفحات پر مشتمل اختلافی نوٹ جاری کردیا۔جسٹس اطہر من اللہ کی جانب سے جاری کردہ اختلافی نوٹ میں کہا گیا ہے کہ انہوں نے کیس کی کارروائی کو براہ راست نشر کرنے کی درخواست کو منظور کیا اور لکھا کہ بنیادی حقوق کے تحفظ کے لیے براہ راست نشر کرنا ضروری ہے۔جسٹس اطہر من اللہ نے مزید لکھا کہ عوام کو سپریم کورٹ کی براہ راست نشریات تک رسائی نہ دینے کی کوئی ٹھوس وجہ موجود نہیں، بلکہ اس سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس میں طے کیے گئے اصولوں کی خلاف ورزی ہوگی۔

جسٹس اطہر من اللہ کے اختلافی نوٹ کے مطابق سپریم کورٹ میں جاری نیب ترامیم کیس کے دوران عمران خان ویڈیو لنک کے ذریعے عدالت میں پیش ہوئے لیکن عدالتی کارروائی لائیو نہیں دکھائی گئی۔ بانی پی ٹی آئی عمران خان ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کے سربراہ ہیں۔ سب سے بڑی سیاسی جماعت کے سربراہ ہونے کے ناطے بانی پی ٹی آئی عمران خان کو لائیو دکھانا کسی قانون کی خلاف ورزی نہیں ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ کے مطابق سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو جب گرفتار کر کے جیل بھیجا گیا تھا تو وہ کوئی عام قیدی نہیں تھے بلکہ آئین شکن فوجی آمر کی ریاستی مشینری کے متاثرہ فریق تھے، سپریم کورٹ نے چار دہائیوں بعد حال ہی میں ذوالفقار بھٹو کی ناانصافی کا تذکرہ کیا کہ انہیں شفاف ٹرائل سے محروم رکھا گیا، لیکن بھٹو کو جو نقصان پہنچا اسکا مداوا نہیں ہو سکتا۔فاضل جج نے کہا کہ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف بھی کوئی عام مجرم نہیں تھے، ان دونوں کو بھی ریاستی طاقت کے غلط استعمال کا سامنا کرنا پڑا، دونوں رہنما عوامی نمائندہ ہونے کے ناطے لاکھوں فالورز رکھتے تھے، دونوں کو ہراساں کیا گیا اور تضحیک کا نشانہ بنایا گیا اور ان کے خلاف غیر منتخب لوگوں کی جانب سے بغیر شواہد کرپشن کے مقدمات بنائے گئے۔

بیرون ملک پناہ لینے والوں کو پاسپورٹ جاری نہ کرنے کا فیصلہ

 

 جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ حیرانی کی بات ہے کہ ایک اور سابق وزیراعظم کے خلاف متعدد ٹرائلز چلائے جا رہے ہیں جن میں سے کچھ میں انہیں سزا ہو چکی ہے، حالیہ عام انتخابات سے ثابت ہوا کہ بانی پی ٹی آئی کے بھی لاکھوں سپورٹرز ہیں، وہ کوئی عام مجرم یا قیدی نہیں ہیں۔انہوں نے لکھا کہ منتخب عوامی نمائندوں کی تضحیک اور ان کو ہراساں کیے جانے میں عدلیہ کا گٹھ جوڑ رہا، یہ تاثر ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کے گٹھ جوڑ کیوجہ سے منتخب عوامی نمائندوں سے بدسلوکی کی جاتی رہی ہے۔

 جسٹس اطہر من اللّٰہ نے مزید کہا کہ نیب قانون فوجی آمر نے 16 نومبر 1999 کو نافذ کیا، جس کے ذریعے سیاستدانوں کو انتقام کا نشانہ بنایا گیا، مسلسل یہ الزامات لگتے رہے کہ نیب سیاسی انجینئرنگ کے لیے استعمال ہوتا رہا، غیر امتیازی سلوک کی وجہ سے عوام کی نظر میں نیب کی ساکھ اور غیر جانبداری کو شدید نقصان پہنچا، نیب قانون کے سبب لوگوں کو کئی کئی ماہ حتیٰ کہ کئی کئی سال گرفتار رکھا گیا، نیب کہتا ہے کہ ٹرائل تیس دنوں میں مکمل ہوگا، نیب کی وجہ سے ملک کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا، شاہد خاقان عباسی، نوازشریف، یوسف رضا گیلانی کی نہ صرف تذلیل کی گئی بلکہ ان کا وقار بھی مجروح کیا گیا۔

واضح رہے کہ نیب ترامیم کے خلاف درخواستوں پر آخری 30 مئی کو ہوئی تھی، چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ نے مقدمے کی سماعت کی تھی، بینچ میں جسٹس امین الدین، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس حسن اظہر رضوی شامل تھے جب کہ عمران خان کو بذریعہ ویڈیو لنک عدالت میں پیش کیا گیا تھا۔مقدمے کی سماعت کو براہ راست نشر کرنے کے معاملے پر کارروائی کی سماعت کے آغاز میں ہی وقفہ کردیا گیا تھا، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے تھے کہ لائیو اسٹریمنگ پر تھوڑی دیر میں بتاتے ہیں۔جسٹس اطہر من اللہ نے براہ راست نشریات کی حمایت کی تھی، انہوں نے کہا تھا کہ مقدمہ پہلے لائیو دکھایا جاتا تھا تو اب بھی لائیو ہونا چاہیے۔بعد ازاں کیس کی سماعت براہ راست دکھائی جائے گی یا نہیں پر بینچ مشاورت کرنے کے لیے چلا گیا تھا۔سماعت کے دوبارہ آغاز پر سپریم کورٹ نے نیب ترامیم کیس کی سماعت براہ راست نہ دکھانے کا فیصلہ سنادیا، سپریم کورٹ نے نیب ترامیم کیس براہ راست نشرکرنے کی درخواست مسترد کی اور یہ فیصلہ 4 -1 سے کیا گیا تھا۔

Check Also
Close
Back to top button