سائفر کیس میں عمران کے بری ہونے پر سوال کیوں اٹھ رہے ہیں؟

سائفر کیس میں بانی تحریک انصاف اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی اسلام آباد ہائی کورٹ سے بریت کے فیصلے کے بعد جہاں تحریک انصاف کے حلقوں میں خوشی کی ایک لہر دوڑ گئی ہے وہیں دوسری طرف حکومتی حلقوں میں مایوسی اور افسوس نظر آرہا ہے۔ سینئرصحافی مزمل سہروردی کے مطابق سائفر کیس کاعدالتی فیصلہ اسٹبلشمنٹ کے لیے ایک دھچکے سے کم نہیں ہے۔ تاہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس وقت ہم جوکچھ ہوتا دیکھ رہے ہیں،اس کا انجام کیا ہوگا؟

مزمل سہروردی کے مطابق سائفر کیس بارے عدالتی فیصلہ درست نہیں ہے۔ سائفر ایک خفیہ دستاویز تھی ، اسی لیے اس کو سائفر کہتے ہیں۔ اس خفیہ دستاویز کے مندرجات جلسہ عام میں بیان کیے گئے۔ اس پر صحافیوں کو بریفنگز دی گئیں،اس پر ٹی وی انٹرویوز دیے گئے، اس پر مکمل سیاست کی گئی، اس کے گم ہونے کا ایک ٹی وی انٹرویو میں اعتراف کیا گیا۔ اس کی بنیاد پر ملک کی اپوزیشن کو غدار قرار دیا گیا۔ امپورٹڈ حکومت کا بیانیہ بنایا گیا۔ تحریک عدم اعتماد کے آئینی عمل کو بیرونی مداخلت قرار دیا گیا۔ یہ سب حقائق ہیں۔ جن سے کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا۔ لیکن اس کے باوجود اگر عدلیہ کی نظرمیں یہ کوئی جرم نہیں تو کیا کیا جا سکتا ہے۔ مزمل سہروردی کے بقول وزارت عظمیٰ کے حلف میں یہ بنیادی بات ہے کہ بطور وزیر اعظم جو اہم قومی معاملات آپ کے علم میں آئیں گے، وہ انھیں راز ہی رکھیں گے۔کسی سے نہ ان کا ذکرکریں گے۔ اور نہ ان کو کسی پر ظاہر نہیں کریں گے۔اس حلف کے مطابق منصب سے ہٹ جانے کے بعد بھی وزیر اعظم خفیہ معاملات کو خفیہ رکھنے کے پابند ہیں۔اب سوال یہ ہے کہ اگر آج سائفر کو ظاہر کرنے پر عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو بری کر دیا گیا ہے تو کل کوئی اور بھی کسی خفیہ دستاویز کو پبلک کرے گا، اس کو اپنے ذاتی اور سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرے گا تو ہم اس کو بھی سزا نہیں دے سکیں گے۔

 اس فیصلے کے بعد آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی اہمیت ختم ہو گئی ہے بلکہ اس ایکٹ بے معنی ہو گیا ہے۔ اس فیصلے سے حساس خفیہ معلومات کو آزادانہ استعمال کا ایک لائسنس دے دیا گیا ہے۔ اب آپ اپنے ذاتی مفاد کیلئے ملک کے کسی بھی راز اور خفیہ معلومات کا استعمال کر سکتے ہیں۔

غیر قانونی بھرتیوں کا کیس: محمد خان بھٹی کی درخواست ضمانت منظور

 

ایسے مقدمات میں ملک کی اہمیت کو بھی سامنے رکھنا ہوتا ہے۔ تاہم عدالتی فیصلہ ٹرائل میں ٹیکنیکل خامیوں کی بنیاد پر کیا گیا ہے۔ حقائق سے زیادہ ٹیکنیکل چیزوں کو اہمیت دی گئی ہے۔ ججز کی اس منطق میں وزن نظر نہیں آتا کہ عدالت اس بات میں پھنس گئی کہ اگر سائفر گم ہوگیا ہے تو پھر عمران خان کی تحویل میں ہونے کا کیس کیسے ہے۔ سادہ سی بات ہے کہ گم بھی انھی سے ہوا کیونکہ وہ ان کے پاس ہی تھا۔ گم ہوجانا زیادہ بڑا جرم ہے۔ لیکن عدالت نے اس معاملے کو حقیقت سے زیادہ ٹیکنیکل گراؤنڈ پر ہی دیکھا ہے۔اسی طرح امریکا سے تعلقات خراب کرنے پر بھی عدالت کا استدلال محدود نوعیت کا ہے۔ عدالت کے مطابق جب تک دوسرا ملک آپ کے خلاف کوئی عملی قدم نہ اٹھائے تب تک تعلقات خراب ہونے کی بات کو قبول نہیں کیا جا سکتا۔حالانکہ سفارتی اصول و ضوابط اور ملکوں کے درمیان تعلقات کی حساسیت اور اہمیت کے کئی پہلو ہوتے ہیں۔کیا سائفر کو پبلک کرنے پر جب تک امریکا ہم پر حملہ نہ کر دیتا، تب یہ یقین نہیں آسکتا کہ تعلقات خراب ہوئے ہیں۔ عدالت شاید ڈپلومیسی کے طریقہ کار سے واقف نہیں۔ ممالک کے درمیان ناراضگی کے کئی پہلو ہوتے ہیں۔ عمران خان کو بائیڈن کا فون نہ آنا بھی ناراضگی تھی۔

مزمل سہروردی کے مطابق پاکستان کے نظام انصاف کا یہی مسئلہ ہے۔ یہاں مجرم بچ جاتے ہیں، بات صرف عمران خان کی نہیں، روزانہ عدالتوں میںمجرم بری ہوتے ہیں۔ قاتل بچ جاتے ہیں، ڈاکو بچ جاتے ہیں۔ شاید شہادت کے نظام کو اتنا پیچیدہ بنا دیا گیا ہے ،کو ئی بھی کیس ثابت ہی نہیں ہو سکتا۔ سائفر کیس کے فیصلے کے پاکستان کی سیاست پر بہت منفی اثرات ہوں گے۔سب کو حوصلہ ملے گا کہ اگر کسی سیکرٹ ڈاکومنٹ کو گم کردیا جائے، پاس رکھ لیا جائے، کچھ نہیں ہوگا۔اب تو حلف میں یہ بات بھی ختم کر دینی چاہیے کہ آپ معلومات کو خفیہ رکھیں گے۔ کیونکہ جب خفیہ نہ رکھنے کی کوئی سزا ہی نہیں ہے تو خفیہ رکھنا کیوں ضروری ہے۔

Back to top button