ڈیمُو اور ڈیموکریسی

تحریر : حماد غزنوی ۔۔۔۔  بشکریہ روزنامہ جنگ

اتفاق دیکھیے، کل ہمارے غسل خانے کی ٹوٹی ہوئی جالی سے ایک بِھڑ اندر آ گیا، اور پھر موقع پا کر اس نے متصل خواب گاہ میں ورودِ مسعود فرمایا اور اب پچھلے دو دن سے وہ بھُونڈ ہمارا روم میٹ ہے، یعنی ’گئے دن کہ تنہا تھا میں انجمن میں‘۔یہ کبھی گنگناتا ہوا کان کے پاس سے گزرتا ہے، کبھی سکوت اوڑھ لیتا ہے، کبھی کھڑکی کے پردے پر استراحت فرماتا نظر آتا ہے، اور کبھی تلاشِ بسیار کے باوجود اس کا کُھرانہیں ملتا، غسل خانے کا دروازہ کل سے اس امید پر کھلا رکھا ہوا ہے کہ شاید یہ ڈیمُومعلوم فضائی راستے سے گھر کو لوٹ جائے، اسے ہانکنے کی کئی مخلصانہ کوششیں بھی کی گئی ہیں، مگر تا دمِ تحریریہ دروازہ کھلا ہے، یعنی آج بھی ہمیں ’تیرہ شبوں کا ساتھی‘ میسر رہے گا، یعنی آج بھی اس ’خوش گوار‘ موسم میں احتیاطاً منہ سر لپیٹ کہ سونے کی سعی کی جائے گی۔ ہم تو دو دن میں گھبرا گئے۔ آج اپنے ہم وطنوں کی عزت ہماری نظر میں اور بڑھ گئی ہے جنہوں نے اپنی ساری زندگی بھونڈوں کے ڈنک کھاتے گزار دی ہے۔ یہ 1993ءکی بات ہے، ایک انگریزی اخبار میں ملازمت کے دوران ہم نے احمد ندیم قاسمی صاحب کو شخصی خاکے لکھنے پر راضی کر لیا، وہ اردو میں لکھتے ہم انگریزی میں ترجمہ کر کے چھاپ لیتے۔ انہوں نے پہلا خاکا سعادت حسن منٹو کا لکھا، جس میں منٹو ایک جگہ کہتے ہیں کہ پنجابی زبان کے الفاظ اسماء اور افعال کی بنیادی کیفیت کوصوت میںڈھال دیتے ہیں، انہوں نے بہت سی مثالیں دیں، مثلاً ’ڈڈو‘۔ منٹو کہتے ہیں اس لفظ میں مینڈک کے نین نقش اور چال ڈھال سب کچھ دکھائی دیتا ہے، اسی طرح منٹو کا خیال تھا کہ ’ چِب‘ سے زیادہ بلیغ لفظ کسی زبان میں ممکن نہیں۔ ہم منٹو سے متفق ہیں، اب آپ ہی بتائیے کہاں ’بمبل بی‘ اور کہاں’ ڈیمُو‘۔ گوشِ تصور سے آپ’ ڈیمُو‘ میں ڈنک بھی محسوس کرتے ہیں اور اگر ڈیمو کی ’و ‘ کو ذرا لمبا کریں توڈیموآپ کو کان کے پاس بھنبھناتا ہوا بھی سنائی دے گا۔ لہٰذا، اس تحریر میں ڈیمُو کو ڈیمُو ہی کہا جائے گا، اس کے علاوہ کسی نام یا نِک نیم یا کنیت سے نہیں پکارا جائے گا۔اب مسئلہ یہ درپیش ہے کہ جیسے ہی گوگل سرچ میں ’ڈیمُو‘ لکھا جاتا ہے ’ڈیموکریسی‘ پر سینکڑوں صفحے نکل آتے ہیں، ڈیموکریسی کے چیلنج، ڈیموکریسی کے دشمن، ڈیموکریسی اورعدالتیں وغیرہ وغیرہ۔مگر ڈیمُو اور اس کے ڈنک سے بچنے کے طریقوںتک پہنچنے کی کوئی سبیل نظر نہیں آتی۔ یہاں یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ یہ جو ایک جج صاحب نے کالا ڈیمو ہونے کا اعلان کیا ہے پاکستان کی تاریخ کا کوئی بھی طالب علم ان سے اختلاف کی جرات نہیں کر سکتا، یہ حقیقت ہے کہ ہماری تاریخ کی نس نس میں ڈیموئوں کے ڈنک کا زہر پھیلا ہوا ہے، یہ جو جسدِ جمہوریت مضمحل دکھائی دیتا ہے، یہ جو کروڑوں لوگ درد سے بلبلا رہے ہیں، یہ سب عجائب شعبدے ڈیموئوں کے ڈنک کی دین ہی تو ہیں۔ یہ کہانی کہاں سے شروع کی جائے؟ دستور ساز اسمبلی جب 1954 میں تحلیل کی گئی تو سندھ ہائی کورٹ نے اسے بحال کر دیا، وفاقی حکومت اپیل لے کر سپریم کورٹ چلی گئی اور وہاں

صارم برنی کی درخواست ضمانت مسترد

 

’’اپنے ہی ڈیموئوں سے ملاقات ہو گئی‘‘، یعنی اس ملک میں جمہوریت کے تصور کو پہلا ڈنک مارا گیا، گورنر جنرل اور ڈیمو جیت گئے، عوامی نمائندگان ہار گئے، اور پھر چل سو چل۔ ملک میں ایک کے بعد ایک مارشل لالگتا چلا گیا، اور ڈکٹیٹروں کی دُھن پر ڈیمو ڈانس کرتے چلے گئے۔جسٹس منیر سے جسٹس انوارالحق تک اور جسٹس ارشاد خان سے ثاقب نثار، آصف کھوسہ اور عطا بندیال تک (جن ڈیموئوں کے نام رہ گئے ہیں، ان سے اور ان کے اہل و عیال سے معذرت) ڈنک ہی ڈنک، زہر ہی زہر۔لیکن یہ ڈنک آئین کے چہرے کے لیے مخصوص رہا، ڈکٹیٹروں کو تو ڈیمو راگ پیلو کے میٹھے میٹھے پلٹے سناتے رہے۔آئین کا منہ سُوج گیا، آئین کا حلیہ بگڑ گیا، ڈیمو ڈنک مارتے چلے گئے، جسدِ مادرِ وطن میں زہر اتارتے چلے گئے۔ تین ججوں نے کہا آئین میں لکھا ہے کہ منحرفین کے ووٹ شمار ہوں گے، مگر ہم کہہ رہے ہیں کہ نہیں ہوں گے، سو نہیں ہوں گے۔ کالے ڈیموئوں نے قاضی کو ڈسا وہ بچ گئے، شوکت عزیر صدیقی کو ڈسا وہ نہ بچ پائے، اور لطف کی بات تو یہ ہے کہ جب شوکت صدیقی کو ڈسا جا رہا تھا تو ایک ڈیمو دل ہی دل میں مسکراتا ہوا چیف جسٹس کی کرسی کی طرف محوِ پرواز تھا۔ حال ہی میںاسلام آباد ہائی کورٹ میں جو چھ ججوں کا چھتہ، معاف کیجیے گا، جتھا سامنے آیا تھا، یا جو سائفر کیس کا فیصلہ آیا ہے، اس پر ہماری رائے جاننے کے لیے ایک قصہ سُن لیجیے۔ جسٹس مولوی مشتاق بھٹو صاحب کو ڈسنے والوں میں پیش پیش تھے، مولوی صاحب کے جنازے پر جب شہد کی مکھیوں نے حملہ کر دیا تو سب لوگ میت کو چھوڑ چھاڑ بھاگ کھڑے ہوئے، بعد میں اپنے بھاگنے کی وجہ بتاتے ہوئے ایک وکیل صاحب نے فرمایا تھا ’’ہمارا اس میں کیا کام تھا، یہ ڈنک مارنے والوں کی آپس کی لڑائی تھی۔‘‘ پاکستان کے اکثر جمہوریت پسند بھی اس وقت وطن کے اسٹیج پر ہونے والی دھینگا مشتی کو اسی نظر سے دم سادھے دیکھ رہے ہیں۔ ڈنک زہر سے لبریز ہو چکے ہیں۔ ادارے اداروں کو ڈسنےکیلئےبے تاب نظر آتے ہیں۔ آپ کو بھی یہی مشورہ ہے کہ میت کو چھوڑ کر بھاگ جائیں۔

الحمدللہ، ابھی ابھی ڈیمو ہمارے کمرے سے غسل خانے کی طرف پرواز کر گیا ہے۔ دروازہ بند کر لیا گیا ہے، زندگی پُرسکون ہو چکی ہے۔ دعا ہے کہ پاکستان کو بھی ڈیمُو(کریسی) سے نجات ملے اور پورا ملک سکون کی زندگی گزار سکے، آمین!

Back to top button