تحریک انصاف پرپابندی لگانے کی افواہیں دوبارہ گردش میں کیوں ؟
اسلام اباد میں ایک برس بعد پھر سے ان افواہوں نے شدت اختیار کر لی ہے کہ عمران خان کی تحریک انصاف پر ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث ہونے کی بنا پر پابندی عائد کی جا رہی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ اس مرتبہ ان افواہوں کی وجہ عمران خان کی وہ ٹویٹ بنی جس میں انہوں نے اپنا موازنہ شیخ مجیب الرحمن سے اور آرمی چیف جنرل عاصم منیر کا موازنہ پاکستان توڑنے والے جنرل یحیی خان سے کیا ہے۔ تاہم سیاسی تجزیہ کاروں کے خیال میں تحریک لبیک پر حکومت کی جانب سے لگائی گئی پابندی واپس لینے کے بعد اب کسی بھی سیاسی جماعت پر پابندی عائد کرنا ممکن نظر نہیں آتا۔ تجزیہ کار کہتے ہیں کہ اگر حکومت نے اسٹیبلشمنٹ کے دباؤ پر یہ غلطی کر بھی لی تو بھی سپریم کورٹ میں ایسا فیصلہ ریورس ہو جائے گا۔
یاد ریے لہ ماضی میں بھی مختلف سیاسی جماعتوں پر پابندی لگائی گئی تھی لیکن اس کا کوئی خاطر خواہ فائدہ نہیں ہوا۔ جن سیاسی جماعتوں پر 70 کی دہائی میں پابندی لگائی گئی تھی ان میں سوائے ایک کے باقی جماعتیں اب بھی کسی نہ کسی نام سے اپنا وجود رکھتی ہیں۔ جنرل یحییٰ کا دور آمریت سیاسی جماعتوں کے لیے بدترین تھا۔ اس کے دور میں 3 جماعتوں کو بین کیا گیا جن میں جنرل ایوب خان کی جماعت کنونشن مسلم لیگ، شیخ مجیب الرحمان کی عوامی لیگ اور خان ولی خان کی نیشنل عوامی پارٹی شامل تھیں۔ عوامی لیگ کا تو بنگلا دیش بننے کے بعد پاکستان سے کوئی تعلق ہی نہ رہا۔ خان ولی خان کی نیشنل عوامی پارٹی اپنا کام کرتی رہی جبکہ جنرل ایوب خان کی کنونشن مسلم لیگ کا اسٹیٹس ابھی بھی ایک بین سیاسی جماعت کا ہے۔
1975 میں سپریم کورٹ نے سیاسی جماعتوں پر پابندی کا کیس سنا لیکن خان ولی خان نے سپریم کورٹ کی کارروائی کا بائیکاٹ کردیا چنانچہ عدالت نے یکطرفہ کارروائی کرتے ہوئے اس پر پابندی لگا دی۔ جنرل یحییٰ کے دور کے بعد جنرل ضیاالحق نے اسی کو بہانہ بنا کر 1977 اور 1979 کے انتخابات ملتوی کردیے اور بالآخر 1979 میں ساری سیاسی جماعتوں کو ہی بین کردیا۔ جنرل ضیاالحق کی طرف سے لگائی گئی پابندی بالآخر 1988 میں ختم ہوئی۔ عدالت عظمیٰ کے فل کورٹ نے بینظیر بھٹو کی دائر کردہ پٹیشن پر اپنا فیصلہ دیتے ہوئے نہ صرف پابندی ہٹائی بلکہ یہ بھی کہا کہ ایسی پابندی پولیٹیکل پارٹیز آرڈر میں ترمیم کر کے نہیں بلکہ صرف آئین میں ترمیم کر کے لگائی جا سکتی ہے۔
چین کی سولر کمپنی کو پاکستان میں مینوفیکچرنگ پلانٹ لگانےکی دعوت
آئینی ماہرین کے مطابق اب اگر کسی سیاسی جماعت پر پابندی لگانی ہے تو اس کے لیے 2 راستے ہیں۔ پہلا یہ ہے کہ آرٹیکل 17 (2) کے تحت وفاقی حکومت اس سیاسی جماعت کے خلاف شواہد کے ساتھ سپریم کورٹ میں ایک ریفرنس دائر کرے گی کیونکہ حکومت بھی کوئی سیاسی جماعت ہی کر رہی ہوتی ہے اور جس پر پابندی لگانا مقصود ہے وہ بھی کوئی سیاسی جماعت ہے۔ لہزا مفادات کے ٹکراؤ کا اصول مدنظر رکھتے ہوئے سپریم کورٹ کو ایک نیوٹرل ایمپائر کے طور پر معاملہ ریفر کیا جاتا ہے۔
ماہرین کے مطابق سیاسی جماعت پر پابندی کا دوسرا طریقہ یہ ہے کہ انسداد دہشتگردی ایکٹ کے تحت کسی سیاسی جماعت کو دہشتگرد ڈیکلئیر کرکے اس کو شیڈول 4 میں ڈالا جائے اور اس کی منقولہ و غیر منقولہ جائیداد کو ضبط کردیا جائے۔ دراصل آئین پاکستان میں صرف 3 چیزوں کو جرم ڈیکلئیر کیا گیا ہے، ایک آرٹیکل 6 غداری کا جرم ہے، دوسرا آرٹیکل 204 توہین عدالت کا جرم ہے اور تیسرا آرٹیکل 256 کسی بھی قسم کی پرائیویٹ مسلح دستے رکھنا غیر قانونی ہے۔ یہ انسداد دہشتگردی ایکٹ بھی آئین کے اسی آرٹیکل 256 سے ماخوذ کیا گیا ہے۔
لیکن سیاسی جماعت پر پابندی انسداد دہشتگردی ایکٹ کے تحت نہیں بلکہ آرٹیکل 17 (2) کے تحت سپریم کورٹ میں ریفرنس دائر کرکے لگائی جاتی ہے۔ سیاسی تجزیہ کار کہتے ہیں کہ اگر آئین و قانون اور ماضی کے عدالتی فیصلے کی نظیر کو سامنے رکھا جائے تو پی ٹی آئی کوئی چھوٹی علاقائی جماعت نہیں بلکہ ایک بڑی جماعت ہے اس ہر پابندی لگانا اتنا آسان نہیں ہوگا۔ اور نہ ہی موجودہ حکومتی اتحاد میں شامل سیاسی جماعتیں کبھی ایسا چاہیں گی کہ اس طرح کسی مخالف سیاسی جماعت کو بین کیا جائے۔ لیکن اگر انہوں نے ایسا کیا تو مستقبل کے لیے ایک راستہ کھل جائے گا۔