ڈالرز کے عوض پاکستانی بچے بیچنے والے صارم برنی کا بچنا مشکل
صارم برنی اور اُن کے ٹرسٹ پر خوف کے گہرے سائے منڈلانے لگے ہیں۔ ڈالرز کے بدے بچیوں کی فروخت کے ناقابل تردید ثبوت سامنے آنے کے بعد اب بچوں کی انسانی اسمگلنگ اور دستاویزات میں ردوبدل سے متعلق کیس میں صارم برنی اور ان کی اہلیہ عالیہ صارم برنی سمیت 5 ملزمان کو قصور وار قرار دے دیا ہے۔صارم برنی کیخلاف ٹھوس شواہد اور چشم دید گواہ سامنے آنے کے بعد نام نہاد سماجی کارکن کا انجام سے بچنا ناممکن دکھائی دیتا ہے۔
روزنامہ امت کی ایک رپورٹ کے مطابق ایف آئی اے نے امریکی قونصل جنرل کراچی کی شکایت پر درج مقدمہ کی تحقیقات مکمل کرلی ہیں۔ تحقیقات میں سامنے آیا کہ ملزمان، صارم برنی ٹرسٹ کے نام سے حقیقی والدین سے ان کے بچے لیکر دوسری فیملیز کو فروخت کرتے رہے۔ ایف آئی اے نے شواہد اکٹھا کرکے حتمی رپورٹ ٹرائل کورٹ میں جمع کرادی ہے۔ جس کی بنیاد پر صارم برنی سمیت دیگر ملزمان پر کیس چلایا جائے گا۔
واضح رہے کہ ایف آئی اے میں صارم برنی ٹرسٹ کے خلاف بچوں کی بیرون ملک اسمگلنگ اور دستاویزات میں ردوبدل سے متعلق مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ جس کی تحقیقات مکمل کرلی گئی ہیں اور ایف آئی اے نے صارم برنی ٹرسٹ کے خلاف شواہد جمع کرکے حتمی رپورٹ جوڈیشل مجسٹریٹ شرقی کی عدالت میں جمع کرادی ہے۔
ایف آئی اے کی تحقیقات میں سامنے آیا کہ صارم برنی اپنے ایسوسی ایٹس بسالت اے خان، حمیرا ناز و دیگر کے ساتھ مل کر بچوں کی دستاویزات میں ردوبدل کرتے تھے اور فیملی کورٹ میں جمع کرواکے بچوں کی غیر قانونی طور پر گارجین شپ حاصل کرلیتے تھے۔ تاکہ انہیں بیرون ملک میں گود دینے کے نام پر اسمگل کیا جاسکے۔ یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ صارم برنی ٹرسٹ نے بچیوں کو غیر ملکی فیملی کو گود دینے کیلئے فی کس 3 ہزار ڈالر بھی وصول کیے۔
اس حوالے سے متعدد کیسز سامنے آئے جن کے مطابق صارم برنی ٹرسٹ نے بچوں کو لاوارث قرار دیکر اپنے پاس رکھا ہوا تھا۔ جن میں فرقان، آرون، عائشہ، امیرہ، زویہ حسن، منتہا،مریم، جنت اور فاطمہ شامل ہیں۔ تحقیقات سے معلوم ہوا کہ ملزمان ملی بھگت سے بچوں کو ان کے حقیقی والدین سے اڈاپٹ کرتے تھے اور ان کو لاوارث قرار دیکر گارڈین شپ حاصل کرلیتے تھے۔ اس کے بعد انہیں غیر ملکی خاندانوں کو گود دینے کے نام پر فروخت کردیتے تھے۔ ایف آئی اے کی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق ملزم صارم برنی جو صارم برنی ٹرسٹ کا ٹرسٹی ہے اور ٹرسٹ کے تمام انتظامی و دیگر معاملات کو سنبھالتا ہے۔
ایف آئی اے رپورٹ کے مطابق ملزم صارم برنی حقیقی والدین سے بچوں کو گود لیتا تھا اور پھر غیر قانونی طور پر کسی دوسری فیملی سے پیسے وصول کرکے انہیں دے دیتا تھا۔ ملزم صارم برنی کی غیر قانونی سرگرمیوں کے حوالے سے تین بچیوں کے والدین نے تصدیق کی ہے۔ جن کے ضابطہ فوجداری کی دفعہ 164 کے تحت بیانات بھی قلمبند کرادیئے گئے ہیں۔ ملزمہ عالیہ صارم برنی بھی ٹرسٹ کی ٹرسٹی ہیں اور وہ بھی اپنے شوہر صارم برنی کے ساتھ ٹرسٹ کے انتظامی و دیگر معاملات چلاتی ہیں۔ وہ اپنے شوہر کی جانب سے بچوں کی غیر قانونی خرید و فروخت سے باخبر تھیں۔ جبکہ انہیں یہ بھی معلوم ہے کہ ان کے شوہر دیگر ملزمان سے ملی بھگت کرکے بچوں کے جعلی دستاویزات کے ذریعے گارجین شپ حاصل کرتے تھے۔
ملزم بسالت علی خان صارم برنی ٹرسٹ کا لیگل ایڈوائزر ہے۔ جو فیملی کورٹ میں بچوں کے حوالے سے اصل حقائق کو چھپاتے ہوئے دستاویزات تیار اور جمع کراتا ہے۔ ملزمہ حمیرہ ناز صارم برنی ٹرسٹ کے شیلٹر ہوم کی انچارج ہے اور اس نے فیملی کورٹ میں بچوں کے داخلے اور لاوارث سرٹیفکیٹ جمع کروائے تھے۔ جبکہ ملزمہ نے دو بچوں کو غیرملکی خاندانوں کو فروخت کیے جانے کے 6 ہزار ڈالر وصول کیے تھے۔
ملزمہ مدیحہ سرجانی ٹاؤن میں پرائیویٹ کلینک چلاتی ہے۔ اس نے حیا نور بچی کو حقیقی والدین سے لیکر دوسری فیملی کو ساڑھے تین لاکھ روپے میں فروخت کیا تھا۔ ایف آئی اے کی جانب سے اس کیس میں صارم برنی، عالیہ صارم برنی، بسالت علی خان، حمیرہ ناز اور مدیحہ اسلام کو قصور وار قرار دیا گیا ہے۔ جبکہ ملزمان کے خلاف شواہد اور تحقیقاتی رپورٹ متعلقہ عدالت میں جمع کرادی گئی ہے۔ ایف آئی اے کی اس تحقیقاتی رپورٹ کی بنیاد پر صارم برنی سمیت پانچوں ملزمان کے خلاف کیس چلایا جائے گا۔
یاد رہے کہ امریکی شکایت پر ایف آئی اے نے صارم برنی کو امریکا سے واپسی پر کراچی ایئرپورٹ سے گرفتار کیا تھا،صارم برنی اس وقت عدالتی ریمانڈ پر جیل میں ہیں، ملزم کے خلاف ایف آئی اے میں مقدمہ درج ہے۔جبکہ عدالت صارم برنی کی درخواست ضمانت بھی مسترد کرچکی ہے۔ایف آئی اےحکام کے مطابق صارم برنی پر انتہائی سنگین نوعیت کے الزامات ہیں، کافی عرصے سے صارم برنی کی نقل و حرکت پر نظر رکھی جا رہی تھی۔