فوج کے باغی ایجنٹ کو قابو کرنا لازمی کیوں ہو گیا؟

عمران خان نے ملکی سیاست اور ریاستی اداروں میں تقسیم اور نفرت کا ایسا بیج بویا ہے جس کے نتیجے میں پاکستان کی معیشت، سیاست اور امن و امان کی صورتحال بدترین ہو چکی ہے۔ اس وقت صرف ایک بات کی پیش گوئی کی جا سکتی ہے کہ آنے والے دنوں میں یہ بحران مزید بڑھے گا۔ یہ جتنا گہرا ہو گا، اتنا ہی انتشار ہو گا، اتنی ہی بدامنی ہوگی۔

تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ عمران خان نے عدالت میں پیش نہ ہو کر حالات کو غیر مستحکم کر دیا ہے۔اب بھی اگر عمران خان کوقابو کر کے قانون کی بالادستی اور ریاستی رٹ کو یقینی نہ بنایا گیا تو ملک میں بد امنی، لاقانونیت اور انتشار کی ایسی ہوا چلے گی جو سب کچھ برباد کر دے گی۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ ریاست کی رٹ کو قائم کرنے کیلئے عدالتی احکامات پر عمران خان کی گرفتاری ناگزیر ہے ورنہ ہر کسی کو یہ آپشن مل جائے گا کہ ہزار دو ہزار ورکر لے کر آو پولیس کی درگت بناو اور گھر میں سکون سے مزے اڑاو۔ اگر عمران خان کو بزوربازو عدالتی احکامات کی بہادری پر مجبور نہ کیا گیا تو ملک میں قانون کی عملداری ایک مذاق بن کر رہ جائے گی۔تجزیہ کار بیرسٹر منیب فاروق کا کہنا ہے کہ ’یہ درست ہے کہ عمران خان اس وقت ملک کے مقبول ترین لیڈر ہیں، ان کی پارٹی عوام کے سب سے زیادہ قریب ہے، لیکن کیا اس سے وہ قانون سے بالاتر ہیں، کیا ملک ان کے سامنے جھک جائے، گھٹنے ٹیک دے۔‘ان کے مطابق ’اس سے ایک مثال قائم ہو سکتی ہے کہ اگر کسی رہنما کو عوام کی حمایت حاصل ہو تو وہ عدالتی وارنٹ کے باوجود اپنے حامیوں کے ساتھ کھڑا ہو کر کہہ سکتا ہے کہ وہ سر نہیں جھکائیں گے اور ملک کو بے بس ثابت کریں گے۔

منیب کا کہنا ہے کہ ’یہ پاکستان کے لیے فیصلہ کن لمحہ ہے۔‘انھوں نے کہا کہ ’عمران خان کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے وہ عدالتی احکامات کی نافرمانی کی وجہ سے ہو رہا ہے۔ ناقابل ضمانت وارنٹ کا اصول واضح ہے۔ جب جج کسی ملزم کو عدالت میں پیش کرنا چاہتا ہے تو وہ خود اسے گرفتار کرنے نہیں جاتا، اس کے لیے وہ ریاست کی طاقت کا استعمال کرتا ہے۔’اگر پولیس اپنی قانونی ذمہ داری پوری کرنے جاتی ہے اور اسے اپنا کام کرنے سے روکا جاتا ہے تو ریاست اپنی پوری طاقت کے ساتھ اس کے پیچھے کھڑی ہو سکتی ہے اور اپنی پوری طاقت استعمال کر سکتی ہے۔

تاہم سینئرصحافی حامد میر کا خیال ہے کہ عمران خان کے پرجوش حامی اور تحریک انصاف پاکستان کے رہنماؤں کا ایک گروپ عمران کی گرفتاری میں رکاوٹیں ڈال رہا ہے۔’وہ اسلام آباد پولیس پر اعتماد نہیں کرتے جو قانون شکنی کے لیے بدنام ہے۔ انھوں نے عمران خان کے ساتھی شہباز گل کے ساتھ کیا کیا؟ انھیں اسلام آباد سے گرفتار کیا گیا مگر پھر کسی اور کے حوالے کر دیا گیا۔

حامد میر نے پی ٹی آئی کے بعض سینئر ذرائع کے حوالے سے دعویٰ کیا ہے کہ پارٹی کے کئی رہنما عمران خان کی عدالت میں پیشی پر رضامند تھے لیکن عمران خان کے پرجوش حامی اور چند رہنما ایسا نہیں ہونے دے رہے۔پاکستان کے وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ یہ کہہ چکے ہیں کہ وہ سابق وزیراعظم کو سبق سکھائیں گے اور حامد میر کا خیال ہے کہ اس سے بھی عمران خان کے حامیوں کو مشتعل ہونے کا بہانہ مل گیا ہے۔

دوسری طرف سیاسی مبصر حسن عسکری رضوی ملکی حالیہ سیاسی صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ عمران خان کی گرفتاری کیلئے زمان پارک آمد پر متشدد رد عمل نے پاکستان کی سیاست کو اس مقام پر پہنچا دیا ہے جہاں یہ کہنا بہت مشکل ہے کہ آئندہ چند ہفتوں میں کیا ہو سکتا ہے۔حسن رضوی کا خیال ہے کہ حکومت اور تحریک انصاف کے درمیان پائی جانے والی کشیدگی عالمی مالیاتی ادارے کے ساتھ قرض کے حصول کے لیے ہونے والے مذاکرات کو پٹڑی سے اتار سکتی ہے، جس سے سیاسی صورتحال مزید ابتر ہو گی۔ان کے مطابق اگر عمران خان کو ابھی یا آئندہ چند دنوں میں گرفتار کیا گیا تو ’انتخابات ملتوی ہونے کا امکان ہے، کوئی نہیں جانتا کہ پاکستان میں کیا تباہی مچ سکتی ہے۔

حسن رضوی کا خیال ہے کہ ’اخلاقی اور قانونی طور پر عمران خان کو عدالت میں پیش ہونا چاہیے تھا لیکن یہ معاملہ اتنا سادہ نہیں ہے، موجودہ حالات میں اس بڑھتے ہوئے سیاسی درجہ حرارت کو صورتحال سے علیحدہ کر کے دیکھنا درست نہیں ہو گا۔‘انھوں نے دعویٰ کیا کہ پاکستان میں ’پولیس مکمل طور پر سیاسی ہے، پاکستان میں ایسے کیسز میں گرفتاری کی کوئی روایت نہیں۔ جب عمران خان نے انڈرٹیکنگ دی ہے کہ وہ 18 مارچ کو عدالت میں پیش ہوں گے تو پھر زمان پارک میں ایسا ڈرامہ رچانے کی ضرورت نہیں تھی۔ یہ سب سیاست ہے۔ عدم استحکام کی سیاست۔

خیال رہے کہ بی بی سی کو دیے گئے انٹرویو میں عمران خان نے یہ الزام بھی لگایا ہے کہ زمان پارک کو میدان جنگ بنانے کے پیچھے پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کا بھی ہاتھ ہے اور ملک کے تمام فیصلے آرمی چیف کر رہے ہیں جس کی وجہ سے ملک کو موجودہ مسائل کا سامنا ہے۔

سیاسی مبصر رسول بخش رئیس کا کہنا ہے کہ ’زمان پارک کا تصادم اسٹیبلشمنٹ اور اس کے سیاسی اتحادیوں کی جانب سے عمران خان کو پاکستانی سیاست سے بے دخل کرنے اور ان کی پارٹی کو تباہ کرنے کے لیے ایک سال سے جاری مہم کا خاتمہ ہے۔‘’لیکن وہ اب تک کچھ حاصل نہیں کر سکے، اس وقت پاکستان کی سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ اور تمام سیاسی جماعتیں ایک طرف کھڑی ہیں اور عمران خان ایک طرف ہیں۔ اس محاذ آرائی سے عمران خان کو ہر طرح سے فائدہ ہونے والا ہے اور دوسری طرف نقصان ہی ہو گا۔‘ان کے خیال میں ’یہ پاکستان کی سیاسی تاریخ کا ایک اہم لمحہ ہے۔ یہ ملک کی سیاست کا مستقبل اور اس میں فوج کا کردار بھی طے کرے گا۔

دوسری جانب پی ٹی آئی کا دعویٰ ہے کہ زمان پارک میں پولیس نے اس کے حامیوں پر حملہ کیا جس کی وجہ سے کشیدگی میں اضافہ ہوا لیکن وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے عمران خان پر انتشار پھیلانے اور ملک کو خانہ جنگی کے دہانے پر پہنچانے کا الزام لگایا ہے۔وزیر اطلاعات مریم کا کہنا تھا کہ ‘پولیس کے پاس گولیاں نہیں تھیں، ان پر عمران خان کے حامیوں کے گروپوں نے حملہ کیا، وہ خواتین اور بچوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔

دوسری جانب پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ پولیس نے انتہائی تحمل سے زمان پارک کی صورتحال پر قابو پالیا تاکہ کوئی جانی نقصان نہ ہو، ورنہ پولیس کے لیے عمران خان کو گرفتار کرنا زیادہ مشکل نہ ہوتا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ عمران خان اپنی سیاست چمکانے کے لیے لاشیں گرانا چاہتے ہیں۔

کیا آئی ایم ایف عمران کی وجہ سے معاہدہ نہیں کر رہا؟

Related Articles

Back to top button