اسٹیبلشمنٹ کی شٹ اپ کال پرخان بھیگی بلی بن گیا

تمام تر جارحانہ اقدامات اور الزام تراشیوں کے باوجود طاقتور حلقوں کی جانب سے مطلوبہ جواب نہ ملنے پرعمران خان اچانک سے نرم پڑ گئے ہیں, اسٹیبلشمنٹ اور موجودہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر پر لندن پلان کےتحت اپنی گرفتاری کا الزام عائد کرنے والے عمران خان نے اب سوشل میڈیا پر جاری کردہ تازہ بیان میں کہا ہے  کہ میں کسی سے بھی بات چیت کرنے کو تیار ہوں اور عدالت میں بھی پیش ہوں گا۔ذرائع کے مطابق زمان پارک میں جتھوں کے ذریعے سیکیورٹی اہلکاروں پر حملہ آور ہونے کے بعد عمران خان نے صدر عارف علوی کے ذریعے اسٹیبلشمنٹ سے رابطے کی کوشش کی تاہم وہاں سے مثبت جواب کی بجائے قانون کی عملداری کو یقینی بنانے کا مشورہ دیا گیا اور ریاست کی رٹ کو ہر صورت یقینی بنانے کے عزم کا اظہار کیا گیا۔ جس کے بعد عمران خان کے جارحیت یکدم مظلومیت میں بدل گئی اور انھوں نے مذاکرات کی راہ اپنانے میں ہی عافیت جانی اور نیا بیان داغ دیا کہ وہ کسی سے بھی بات کرنے کو تیار ہیں۔

خیال رہے کہ منگل کو پولیس کی جانب سے عمران خان کو گرفتار کرنے کی کوشش کے بعد بی بی سی اردو کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں عمران خان نے الزام لگایا ہے کہ ان کی گرفتاری کی کوشش کی شکل میں وہ وعدے پورے کیے جا رہے ہیں جو موجودہ آرمی چیف کی تعیناتی کے موقع پر اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے سابق وزیراعظم نواز شریف سے کیے گئے تھے۔سمجھ نہیں آ رہا کہ آرمی چیف کیوں ان کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔ تاہم عمران کان کے الزامات کو متعلقہ حکام نے ‘بے بنیاد اور جھوٹ پر مبنی’ قرار دیا تھا۔ عمران خان کے اسٹیبلشمنٹ پر لگائے گئے ان الزامات کے بارے میں جب متعلقہ حکام سے سوال کیا گیا تو انھوں نے ان الزامات کو رد کرتے ہوئے کہا کہ ’ایسے تمام الزامات بے بنیاد اور فضول ہیں جن کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ اس طرح کا جھوٹ اور الزامات کا مقصد سیاسی مفادات حاصل کرنا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جو سیاسی رہنما سب کے لیے قانون کی حکمرانی کا پرچار کر رہا ہے وہ خود قانون کی کھلم کھلا خلاف ورزی کر رہا ہے اور عدالت میں پیشی سے بچنے کے لیے تشدد کو ہوا دے رہا ہے۔

 باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ عمران خان کا عدالتی حکم کے باوجود گرفتاری نہ دینے اور مسلسل تین روز تک ریاستی رٹ کو کھلے عام چیلنج کرنے کا مقصد جہاں سانحہ ماڈل ٹاؤن جیسی کیفیت پیدا کر کے حکومت کو مشکل میں ڈالنا تھا وہاں معاملات کو پوائنٹ آف نو ریٹرن پر پہنچا کر طاقتور ریاستی حلقوں کو مذاکرات پر مجبور کرنا بھی مقصود تھا، جہاں سے مسلسل کوششوں کے باوجود عمران خان کو کوئی رسپانس نہیں مل رہا۔ اس مقصد کے لیے اسٹیبلشمنٹ سے قربت کی شہرت رکھنے والے تحریک انصاف کے کئی اہم رہنما پہلے ہی ہاتھ کھڑے کر چکے ہیں جبکہ حالیہ ایپی سوڈ میں تحریک انصاف کے تازہ بہ تازہ صدر بننے والے گھاگ سیاست دان چوہدری پرویز الہٰی کرونا میں “مبتلا ” ہو کر کسی آزمائش سے کنارہ کش ہوگئے ہیں۔اسد عمر نے بھی اس ہنگامہ آرائی سے خود کو دور رکھا جس کی تصدیق یاسمین راشد کے آڈیو بیان سے بھی ہوتی ہے ، سیاسی سوجھ بوجھ رکھنے والے پرویز خٹک ایک آدھ بیان دینے تک محدود رہے جبکہ ہر معاملے میں پیش پیش رہنے والے فواد چوہدری بھی اس بار خاصے محتاط رہے۔ حال ہی میں جیل کی ہوا کھانے والے شیخ رشید نے تو مار دھاڑ پر مبنی اس فلم سے خود کو تقریبا” لاتعلق رکھا۔

ایسے میں اسٹبلشمنٹ سے رابطے کا واحد سہارا صدر مملکت عارف علوی رہ گئے تھے جنہیں بروئے کار لانے کی کوشش کی گئی اورذرائع کے مطابق انہوں نے اس معاملے میں سرگرمی دکھائی بھی ، تاہم متعلقہ اداروں کے حکام کی جانب سے انہیں واضح جواب دیا گیا کہ وارنٹ گرفتاری عدالتی حکم ہے جس پر عملدرآمد حکومت اور انتظامیہ کا کام ہے۔ عدالتی معاملات اور انتظامی امور میں مداخلت نہیں کی جا سکتی۔ اداروں کو ان تنازعات میں گھسیٹنے کے بجائے متعلقہ فورمز پر ہی بات کی جائے تو مناسب ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس جواب پرتحریک انصاف کی قیادت اور زمان پارک کے درودیوار پر مایوسی کے سائے گہرے ہو گئے جس کے بعد عمران خان نے بات چیت کے ذریعے معاملات حل کرنے کی پیش کش کی۔ دوسری طرف حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ اگرچہ گزشتہ تین روز کے دوران پولیس اور انتظامیہ کی جانب سے تحمل کا مظاہرہ کرنے پر شرپسند عناصر کو شہ ملی اور حکومتی رٹ کمزور ہونے کا تاثر پیدا ہوا تاہم اس کا بنیادی مقصد انسانی جانوں کے ضیاع کو روکنا تھا۔ اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ریاستی رٹ چیلنج کرنے والوں اور بلوائیوں کے خلاف قانون حرکت میں نہیں آئے گا۔ ذرائع کے مطابق حملوں میں ملوث پسند عناصر اور ان کے سرپرستوں کے خلاف شواہد جمع کیے جا رہے ہیں اور عنقریب انہیں قانون کی گرفت میں لایا جائے گا۔

عدلیہ عمران کی سیاسی سہولت کار کیسے بنی ہوئی ہے؟

Related Articles

Back to top button