عدلیہ عمران کی سیاسی سہولت کار کیسے بنی ہوئی ہے؟

سینئر صحافی اور تجزیہ کار مزمل سہروردی نے کہا ہے کہ عدالتوں کو سیاسی جماعتوں کی سیاسی ضروریات اور مقاصد کے تحت دائر درخواستیں نہیں سننی چاہیے۔ سیاسی ضروریات اور سیاسی مقاصد کے تحت دائر کی جانے والے درخواستیں عدلیہ کو سیاسی سہولت کار بنانے کی کوشش ہے، جس کی حوصلہ افزائی نہیں بلکہ حوصلہ شکنی ہونی چاہیے۔ اپنے کالم میں مزمل سہروردی کہتے  ہیں کہ تحریک انصاف نے یہ اپنی عادت بنا لی ہے کہ  وہ بیک وقت متعدد عدالتوں سے رجوع کر لیتے ہیں کہ کہیں سے کچھ ریلیف مل ہی جائے گا۔ یہ کوئی اچھی قانونی روایت نہیں۔ جس عدالت کا دائرہ کار ہو وہیں رجوع کرنا چاہیے۔

عمران خان کے توشہ خانہ کیس میں ناقابل ضمانت وارنٹ کا معاملہ ہی دیکھ لیں۔ا س میں بھی بیک وقت لاہور اور اسلام آباد ہائی کورٹس سے رجوع کیا گیا۔ اسلام آباد ہائیکورٹ میں ناقابل ضمانت وارنٹ معطل کرانے کے لیے رجوع کیا گیا۔ جب کہ لاہور ہائی کورٹ سے ان ناقابل ضمانت وارنٹ کی تعمیل رکوانے کے لیے رجوع کیا گیا۔

اب دیکھا جائے تو تحریک انصاف نے دونوں عدالتوں سے ایک جیسا ریلیف ہی مانگا ۔ اگر اسلام آباد ہائی کورٹ وارنٹ معطل کردے  تو پولیس ایکشن رک جائے ، اگر لاہور ہائی کورٹ وارنٹ کی تعمیل کے لیے جاری پولیس ایکشن روک دے تو وارنٹ عملا معطل ہی ہو گئے، اس لیے دونوں عدالتوں سے بیک وقت ایک ہی مقصد حاصل کرنے کے لیے رجوع کیا گیا۔

 اسلام آباد ہائی کورٹ نے وارنٹ معطل نہیں کیے۔لیکن لاہور ہائی کورٹ نے پولیس ایکشن روک دیا، یوں تحریک انصاف اپنا مقصد حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی، اسے اسلام آباد ہائی کورٹ سے تو فوری ریلیف نہیں ملا لیکن لاہور ہائی کورٹ سے ریلیف مل گیا۔

اس کی سیاسی ضرورت پوری ہو گئی کیونکہ اس وقت عمران خان کی سیاسی ضرورت پولیس ایکشن کو روکنا تھا۔ عمران خان کی گرفتاری کو روکنا تھا جو پوری ہو گئی، وارنٹ معطل نہیں بھی ہوئے تب بھی سیاسی ضرورت تو پو ری ہو گئی۔ کیا لاہور ہائی کورٹ کو پولیس ایکشن روکنے سے پہلے عمران خان کو سرنڈر کرنے کے لیے نہیں کہنا چاہیے تھا۔

لاہور ہائی کورٹ کے یہ ریمارکس کے ہم نے وارنٹ کو نہیں چھیڑا قانونی طو رپر تودرست ہیں لیکن نتیجہ یہ ہے کہ پولیس ایکشن روکنے سے وارنٹ کی تعمیل کا عمل رک گیا لہذا وارنٹ کا موجود رہنا بے وقعت ہو گیا۔ ایک شخص جس کے خلاف عدالت نے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے ہوئے ہیں، اسے سرنڈر کے بغیر کوئی ریلیف کیسے دیاجا سکتا ہے۔   پولیس اور انتظامیہ شرپسندوں کے سامنے بے بسی کی تصویر بن چکی ہے، اس لیے زمان پارک میں پولیس پر پیٹرول بم پھینکے گئے،پولیس اہلکاروں کو زخمی کیا گیا، یہ اس لیے ہوا کہ شرپسندوں کو یقین ہے کہ انھیں کچھ نہیں ہوگا۔                                                                                                                                                                                                                                                                مزمل سہروردی بتاتے ہیں کہ تحریک انصاف نے سپریم کورٹ سے قومی اسمبلی میں اپنے اجتماعی استعفوں کی منظوری کے لیے دائرہ پٹیشن بھی واپس لے لی ہے۔

اس پٹیشن میں تحریک انصاف نے سپریم کورٹ سے استدعا کی تھی کہ اسپیکر قومی اسمبلی کو ہدایت کی جائے کہ ان کے قومی اسمبلی کی نشستوں سے دیے گئے تمام استعفے اکٹھے قبول کیے جائیں۔

اس سے پہلے اسپیکر نے پی ٹی آئی کے سا ت ایم این ایز کے استعفے قبول کیے تھے لیکن تحریک انصاف نے سپریم کورٹ سے درخواست کی تھی کہ سب استعفے اکٹھے قبول کیے جائیں۔ تحریک انصاف کی کوشش تھی کہ سپریم کورٹ سے اسپیکر قومی اسمبلی کو ہدایات جاری کرائی جائے کہ وہ تمام استعفے قبول کرلیںکیونکہ وہ فوری استعفوں کی منظوری چاہتی تھی۔

اسی لیے کہتے ہیں کہ سیاسی مقاصد کے لیے عدالتوں کو الجھانے کا سیاسی جماعتوں کا تو کوئی نقصان نہیں ہوتا البتہ نظام عدل ضرور نقصان پہنچتا ہے۔

تحریک انصاف کے قومی ا سمبلی سے استعفے اس کی بہترین مثال ہیں۔ سیاسی معاملات میں عدلیہ کا استعمال نظام عدل کے لیے زہر قاتل بنتا جا رہا ہے، ارکان اسمبلی کے استعفے قبول کرنا اسپیکر کا کام ہے، عدلیہ کو اسپیکر کے دائرہ اختیار میں کسی بھی موقع پر مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔

یہ پارلیمان کی خود مختاری کا بنیادی تقاضا ہے۔ جب کسی رکن اسمبلی نے استعفیٰ دے دیا تو اس کو قبول کرنے یا نہ کرنے کا اختیار اسپیکر کے پاس ہے۔

پہلے تحریک انصاف نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا کہ ان کے تمام استعفے فوری طور پر قبول کیے جائیں۔  جس کے بعد اسپیکر نے تین مراحل میں پروسیجر مکمل کیا، یوں ان کے تمام استعفیٰ قبول کر لیے۔ لیکن جب تحریک انصاف کو احساس ہوا کہ استعفے دینا ان کی سیاسی غلطی ہے تو انھوں نے پینترا بدلا، پی ٹی آئی نے چونکہ پہلے ہی سپریم کورٹ سے رجوع کررکھا تھا کہ ان کے تمام استعفیٰ فوری طور پر قبول کیے جائیں لہذا انھوں نے لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کر لیا کہ اسپیکر قومی اسمبلی نے ان کے استعفے غلط طور پر قبول کیے ہیں۔ اس لیے ان کے استعفے قبول کرنے کے عمل کو مسترد کیا جائے۔                                                                                                                                             مزمل سہروردی کہتے ہیں کہ ایک طرف پہلے اسپیکر استعفیٰ قبول نہیں کر رہا تھا تو تحریک انصاف سپریم کورٹ کے ذریعے اپنے استعفے قبول کرانا چاہتی تھی۔ پھر جب استعفے قبول ہو گئے ہیں تو تحریک انصاف نے ہائی کورٹس سے رجوع کر لیا کہ استعفے قبول کرنے کا فیصلہ مسترد کیا جائے۔  سمجھ نہیں آئی کہ جب سپریم کورٹ میں تمام استعفیٰ قبول کرنے کی درخواست موجود تھی تو ہائی کورٹس میں تمام استعفے قبول کرنے کی درخواستیں کیسے دائر ہو گئیں؟ جب معاملہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت تھا تو ہائی کورٹس نے اس سے متعلقہ کیس کیسے سن لیا؟ کیا عجیب اتفاق نہیں کہ ایک عدالت میں تحریک انصاف نے درخواست دائر کی ہوئی تھی کہ استعفے قبول کیے جائیں جب  کہ دوسری عدالت میں یہ درخواست دائر تھی استعفے قبول نہ کیے جائیں۔کیا یہ ملک کی نظام عدل کے ساتھ مذاق نہیں ہے۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ سیاسی معاملات پارلیمان میں حل ہونے چاہیے۔ کیا سپریم کورٹ کو تحریک انصاف کو اس طرح درخواستیں واپس لینے کی اجازت دینی چاہیے تھی؟ کیا تحریک انصاف سے یہ نہیں پوچھا جانا چاہیے کہ آپ سپریم کورٹ سے استدعا کررہے ہیں کہ ہمارے تمام استعفے فوری اور اکٹھے قبول کرائے جائیں اور ہائی کورٹس میں تمام استعفوں کی قبولیت روکنے کے لیے پہنچ گئے ہیں۔ یہ کیا موقف ہے؟ ایک عدالت میں کچھ کہہ رہے ہیں، دوسری عدالت میں کچھ کہہ رہے ہیں۔

یہ پہلا موقع نہیں، اس سے پہلے بھی تحریک انصاف نے پہلے ایک درخواست اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر کی، جب وہاں سے مطلوبہ ریلیف نہیں ملا۔ تو وہی درخواست لاہور ہائی کورٹ میں دائر کر دی۔

جس پر دونوں ہائی کورٹس پریشان ہو گئیں اور دونوں ہی تحریک انصاف پر نالاں نظر آئیں۔ لیکن کچھ نہیں ہوا۔ عدالت نے کوئی سرزنش نہیں کی                                                                                                                                                                                                              مزمل سہروردی کے مطابق سیاسی مقدمات میں یکساں نظام انصاف کے سنہری اصول کو سامنے رکھنا چاہیے۔ اگر یہ تاثر بنے گا کہ یکساں نظام انصاف کے اصول کو مد نظر نہیں رکھا گیا تو پھر یہ تاثر بنے گا کہ ایک فریق کو ترجیح دی گئی ہے۔عدالتوں کو مقبول اور غیر مقبول کو سامنے رکھ کر بھی فیصلے نہیں کرنے چاہیے۔ سیاسی لڑائی عدالتوں میں لانے کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے۔ مرضی کی عدالت اور مرضی کی درخواست نظام عدل کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے۔

نمبر ون امپائر علیم ڈار نے آئی سی سی سے استعفی کیوں دیا؟

Related Articles

Back to top button