نمبر ون امپائر علیم ڈار نے آئی سی سی سے استعفی کیوں دیا؟

کرکٹ کی تاریخ میں سب سے زیادہ انٹرنیشنل میچوں میں امپائرنگ کرنے والی مایہ ناز پاکستانی امپائر علیم ڈار انیس برس تک آئی سی سی کے ایلیٹ پینل کا حصہ رہنے کے بعد مستعفی ہو گئے . اپنے کیرئر کے دوران انہوں نے متعدد اعزازات اپنے نام کر کے اپنا اور اپنے ملک کا نام روشن کیا . کرکٹ کی تاریخ میں سب سے زیادہ (435) انٹرنیشنل میچوں میں امپائر رہنے والے علیم ڈار 2004 میں اس ایلیٹ پینل میں شامل ہونے والے پہلے پاکستانی تھے اور آئی سی سی کے مطابق وہ ’بین الاقوامی کرکٹ کے سب سے ممتاز امپائرز میں سے ایک ہیں . وہ لگاتار تین سال، 2009 سے 2011 تک، آئی سی سی کے بہترین امپائر منتخب ہوئے تھے۔۔‘ بی بی سی کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ علیم ڈار بطور امپائر سب سے زیادہ ون ڈے اور ٹیسٹ میچوں کا حصہ رہے ہیں جبکہ ٹی ٹوئنٹی میچوں میں ان کا نمبر دوسرا ہے کیونکہ احسن رضا ان سے زیادہ ٹی ٹوئنٹی میچوں میں امپائر رہے ہیں۔ مجموعی طور پر علیم ڈار نے 144 ٹیسٹ، 222 ون ڈے اور 69 ٹی ٹوئنٹی میچوں میں امپائرنگ کی خدمات سر انجام دی ہیں۔ اپنے استعفے کی وجہ بتاتے ہوئے علیم ڈار نے کہا کہ 19 سال تک ایلیٹ پینل پر رہنے کے بعد وہ ’انٹرنیشنل پینل میں سے کسی اور کو یہ موقع دینا چاہتے تھے‘ کہ وہ ایلیٹ پینل کا حصہ بنے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’جب میں نے یہ پیشہ اپنایا تو میں نے سوچا بھی نہ تھا کہ میں اس سے اتنی کامیابی حاصل کروں گا۔‘ آئی سی سی نے 2002 میں ایلیٹ پینل متعارف کرایا تھا جس میں بہترین کارکردگی والے امپائرز کو شامل کیا جاتا ہے۔ اس فہرست پر ہر سال نظر ثانی کی جاتی ہے مگر علیم ڈار لگاتار 19 سال سے اس کا حصہ بنتے رہے ہیں۔

علیم ڈار کے بین الاقوامی کریئر میں یوں تو کئی اہم میچز ہیں جن میں ان کے درست فیصلوں کو یاد رکھا جاتا ہے لیکن 2009ء کی ایشیز سیریز کا کارڈف ٹیسٹ علیم ڈار کے لیے یادگار رہا تھا جس میں ان کے درست فیصلوں کو سب نے سراہا تھا۔ یہ وہی ٹیسٹ میچ ہے جس میں جیمز اینڈرسن اور مونٹی پنیسر نے گیارہ اعشاریہ تین اوورز کھیل کر انگلینڈ کو شکست سے بچالیا تھا۔ اس میچ کے آخری لمحات علیم ڈار کے لیے بھی کسی امتحان سے کم نہ تھے جس میں وہ سرخرو رہے تھے۔

علیم ڈار کے درست فیصلوں کی لمبی فہرست میں سچن تندولکر کو مونٹی پنیسر کی گیند پر ایل بی ڈبلیو دیے جانے کا فیصلہ بھی شامل ہے۔ یہ مونٹی پنیسر کی اپنے پہلے ٹیسٹ میں پہلی وکٹ بھی تھی۔علیم ڈار کی درست فیصلے دینے کی صلاحیت کا ایک ثبوت 2011 کا عالمی کپ بھی ہے جس میں ان کے 15 فیصلوں پر ریویو لیے گئے تھے اور ٹیکنالوجی نے تمام کے تمام 15 فیصلے درست ثابت کیے تھے۔ اس ورلڈ کپ میں وہ واحد امپائر تھے جن کا کوئی بھی فیصلہ ڈی آر ایس میں غلط ثابت نہ ہوا۔

ان کے ساتھی امپائرز ان کی صلاحیتوں کے معترف اور ان کے ساتھ میدان میں موجود کرکٹرز بھی یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ علیم ڈار کے فیصلوں کو سوچ سمجھ کر ہی چیلنج کیا جاسکتا ہے کیونکہ ان کے بہت کم فیصلے غلط ثابت ہوئے ہیں اور وہ امپائرنگ کا ایک خاص معیار مقرر کرچکے ہیں۔

آئی سی سی کو دیے ایک انٹرویو میں علیم ڈار نے بتایا تھا کہ وہ ہمیشہ سے ایک ٹیسٹ کرکٹر بننا چاہتے تھے۔ ’میرے والد پولیس میں تھے اور انھیں اکثر مختلف جگہوں پر پوسٹ کیا جاتا تھا۔’وہاں کوئی کرکٹ نہیں ہوتی تھی تو میں لاہور آیا اور کرکٹ شروع کی۔ میں اسلامیہ کالج سول لائنز سے پہلا بلے باز سلیکٹ ہوا تھا جبکہ (اسی وقت) وسیم اکرم کو بطور بولر سلیکٹ کیا گیا تھا۔‘وہ کہتے ہیں کہ انھوں نے ٹیسٹ کرکٹر بننے کی بھرپور کوشش کی مگر جب بات نہ بن سکی تو ’میں نے امپائر بننے کا فیصلہ کیا۔‘علیم ڈار کے مطابق وہ ایک سال میں ٹیسٹ امپائر بن گئے جبکہ آج کے دور میں کسی کرکٹر کو اس عمل میں چھ سے سات سال لگتے ہیں۔ ’میں بہت خوش قسمت رہا کہ ایک سال میں امپائر بن گیا تھا۔

پی ایس ایل کا فائنل،قلندرز اور سلطانز کاٹاکراآج ہوگا

Related Articles

Back to top button