عمران کے حمایتی زلمے خلیل زاد کے پیچھے کون ہے؟

افغانستان کے لیے امریکہ کے سابق ایلچی زلمے خلیل زاد کی جانب سے سابق وزیرِ اعظم عمران خان کی حمایت میں بیانات پاکستان میں موضوعِ بحث ہیں۔ حکمراں اتحاد اور دفترِ خارجہ زلمے خلیل زاد کے بیانات کو پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت قرار دے رہے ہیں۔یہ بیانات ایسے وقت میں آرہے ہیں جب پاکستان میں سیاسی بحران شدت اختیار کررہا ہے اور پاکستان کی اتحادی حکومت اور عمران خان کے درمیان سیاسی کشیدگی روز بروز بڑھتی جا رہی ہے۔سابق وزیرِاعظم عمران خان جلد انتخابات کامطالبہ کررہے جب کہ دوسری جانب حکومت یہ مطالبہ ماننے پر تیار نہیں ہے۔ الیکشن کمیشن نے پنجاب اسمبلی کے انتخابات کو بھی آٹھ اکتوبر تک ملتوی کر دیاہے۔

امریکہ کے سابق سفارت کار خلیل زاد نے ایک بار پھر جمعرات کو اپنی ایک تازہ ترین ٹویٹ میں پاکستان کی سول اور فوجی قیادت پر زور دیا کہ وہ ان کے بقول اپنی’ تباہ کن’ روش کو تبدیل کریں۔سابق امریکی سفارت کار خلیل زاد نے ماہِ رمضان میں اسلامی ممالک سے غور وفکر کرنے پر زوردیتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں سول اور فوجی قیادت اپنے ملک کی صورتِ حال پر غور کر سکتے ہیں جو ان کے بقول ایک تباہ کن راستے پر ہے۔خلیل زاد نے پاکستان کی سیاسی و فوجی قیادت کو یہ مشور ہ بھی دیا کہ انہیں اپنی ذمے داریوں کے تحت اور اپنے عوام کے مفاد میں اپنا راستہ تبدیل کرنا چاہیے۔

پاکستان کی دفتر ِ خارجہ کی ترجمان نے جمعے کو معمول کی بریفنگ کے دوران خلیل زاد کا نام لیے بغیر کہا کہ پاکستان کے باہر سے آنے والی کوئی بھی آواز یا بیان پاکستان کی جمہوری سیاست اور عوام کو متاثر نہیں کر سکتا۔اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان کے عوام اتنے باشعور ہیں کہ وہ اپنے فیصلے خو د کر سکتے ہیں اور انہیں ملک کے باہر سےکسی مشورے کی ضرورت نہیں ہے۔ پاکستان اس طرح کے کسی بھی بیان کی وجہ سے ہونے والی ہر قسم کی تنقید یا مداخلت کا مقابلہ کر سکتا ہے۔

خیال رہے کہ خلیل زاد گزشتہ چند دنوں میں متعد بار اپنی ٹوئٹس کے ذریعے پاکستان کی صورتِ حال کے بارے میں تبصرہ کر چکے ہیں۔اُنہوں نے 14 مارچ کو ایک ٹوئٹ میں کہا تھا کہ اگر عمران خان کو گرفتار کیا گیا تو پاکستان میں سیاسی بحران مزید بڑھے گا ۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے حکومت کو جون میں ملک بھر میں انتخابات کرنے کی تجویز بھی دی تھی۔

زلمے خلیل زاد کے علاوہ امریکی قانون ساز سینیٹر جیکی روزن نے اپنی ایک ٹوئٹ میں پاکستان میں سیاسی صورتِ حال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے تمام جماعتوں پر اپنے اختلاف پرامن طریقے سے حل کرنے پر زوردیا تھا۔

پاکستان میں بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ زلمے خلیل زاد کے بیانات پرحکومت کی طرف سے ردِعمل باعث تعجب ہے کیوں کہ زلمے خلیل زاد نے محض اپنی رائے کا اظہار کیا ہے۔بعض مبصرین کا خیال ہے اگر چہ یہ بیانات خلیل زاد نے ذاتی حیثیت میں دیے لیکن ان کاما ننا ہے کہ ان بیانات کی اہمیت ہے۔ماہرین کے مطابق جنوبی ایشیا اور پاکستان کے بارے میں خلیل زاد کی رائے کو امریکی حلقوں میں اہم خیال کیا جاتا ہے۔

پاکستان کے سابق سفارت کار اعزاز چوہدری کہتے ہیں کہ اس وقت نہ صرف ملک کے اندر بلکہ باہر بھی تجزیہ کار اور ماہرین پاکستان کے سیاسی بحران کے بارے میں بات کر رہے ہیں۔ اعزاز چوہدری کا کہنا تھا کہ خلیل زاد کے بیانات اور تبصروں کو بھی اس پیرائے میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔اعزز چوہدری کہتے ہیں کہ خلیل زاد کے بیان پر ردِعمل دینے کی کوئی ضرورت نہیں تھی کیوں کہ خلیل زاد کے بیانات ان کی ذاتی رائے ہے۔اعزاز چوہدری کہتے ہیں کہ ان تبصروں کو زیادہ سنجیدہ لینے کی ضرورت نہیں ہے کیوں کہ ملک کے اندر بھی یہ سوچ پنپ رہی ہے کہ جب تک ملک کی سیاست درست نہیں ہو گی معاشی استحکام نہیں آئے گا۔

بین الاقوامی تعلقات کے ماہر ظفر جسپال کہتے ہیں کہ یہ بات بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ امریکی انتظامیہ ہو یا کانگرس ہو وہ ایسے تجزیوں اور ماہرین کی رائے کو نہایت سنجیدہ لیتے ہیں۔ ظفر جسپال کا کہنا تھا کہ ا گرچہ خلیل زاد پاکستان کے بار ے میں اپنی ذتی رائے کا اظہار کررہے ہیں لیکن ان کے خیال میں ان بیانات کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے۔

ظفر جسپال کہتے ہیں کہ اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ اس وقت پاکستان میں ایک سیاسی بحران ہے اور اس سیاسی بحران کا کوئی حل نظر نہیں آرہا ہے۔اُن کے بقول اگر حزبِ اختلاف کے مقبول رہنما عمران خان کو سیاسی عمل سے باہر رکھنے کی کوشش کی جائے گی تو ملک میں عدم استحکام کا خدشہ ہے۔اُن کے بقول پاکستان میں نہایت سنگین سیاسی انتشار ہے اسے سیاست دانوں نے ہی حل کرنا ہے۔۔

بین الااقوامی امور کی تجزیہ کار ہما بقائی کہتی ہیں کہ عمران کی حمایت میں بظاہر سامنے آنے والے بیانات کو امریکہ کی سیاست کے پس منظر میں دیکھا جارہا ہے۔اُں کے بقول خطے میں ہونے والے تبدیلیوں کی وجہ سے ایک بار پھر پاکستان عالمی توجہ کا مرکز بن رہا ہے۔ہما بقائی کے بقول گو کہ یہ خلیل زاد کی ذاتی رائے ہے، لیکن خلیل زاد پاک، امریکہ تعلقات کی نوعیت کو سمجھتے ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ جہاں عمران خان کے حامی خلیل زاد کے بیانات کو سراہتے نظر آتے ہیں تو وہیں حکومتی اتحاد اس پر تنقید کر رہا ہے۔ہما بقائی کے بقول اگر خلیل زاد کے بیانات کی اہمیت نہ ہوتی تو پھر پاکستانی دفترِ خارجہ بھی اس پر ردِعمل نہ دیتا۔

دوسری جانب بعض بیرونی حلقوں میں یہ خیال ظاہر کیاجارہا ہے کہ اگر پاکستان میں سیاسی بحران انتہائی سنگین ہوتا ہے تو اس صورتِ حال میں پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ مداخلت پر مجبو ر ہو سکتی ہے۔

اعزاز چوہدری کہتے ہیں کہ بعض مغربی تجزیہ کار اس خدشے کا اظہار کررہے ہیں کہ اگر پاکستان میں جمہوری نظام ڈی ریل ہوتا ہے تو پھر لامحالہ اسے مغربی ملکوں کی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔اُن کے بقول مغربی ملکوں کو یہ خدشہ ہے کہ اگر ایسی صورتِ حال ہوئی تو پھر پاکستان چین کے مزید قریب ہو جائے گا۔

ہما بقائی کہتی ہیں اس وقت پاکستان کو کئی چیلنجز کا سامنا ہے اور اس صورت میں کوئی بھی سیاسی یا غیر آئینی اقدام ہوتا ہے تو اس کو برقرار رکھنا ایک مشکل امر ہو گا۔ اُن کے بقول اس صورت میں پاکستان کی معاشی مشکلات کا فوری حل ممکن نہیں رہے گا۔

جسٹس مظاہر نقوی کا دھڑن تختہ ہونے کا امکان

Related Articles

Back to top button