سپیکر رولنگ کیس کا فیصلہ محفوظ، شام ساڑھے 7 بجے سنایا جائیگا

عدالت عظمیٰ‌ نے ڈپٹی سپیکر قاسم سوری کی جانب سے وزیراعظم عمران خان کیخلاف تحریک عدم اعتماد کو مسترد کرنے کی رولنگ پر سماعت کے دوران کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا ہے جس کو شام ساڑھے سات بجے سنایا جائیگا جبکہ پنجاب اسمبلی کا معاملہ لاہور ہائیکورٹ‌ لے جانے کا حکم دیدیا، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ سپیکر کی رولنگ بظاہر آئین کے آرٹیکل 95 کے برخلاف ہے، ایک بات نظر آ رہی ہے کہ رولنگ غلط ہے، انتخابات کی کال دے کر 90 روز کیلئے ملک کو بے یارو مددگار چھوڑ دیا جاتا ہے، فیصلہ آج ہی کریں گے۔

چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کا 5 رکنی لارجر بینچ نے اس معاملے پر لیے گئے از خود نوٹس اور متعدد فریقین کی درخواستوں پر آج مسلسل پانچویں روز سماعت کر رہا ہے، ایڈووکیٹ جنرل پنجاب احمد اویس نے روسٹرم پر آ کر عدالت کو بتایا کہ رات کو نجی ہوٹل میں تمام اراکین صوبائی اسمبلی نے حمزہ شہباز کو وزیراعلی بنا دیا۔

ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ حمزہ شہباز نے بیوروکریٹس کی میٹنگ بھی آج بلا لی ہے، آئین ان لوگوں کے لیے انتہائی معمولی سی بات ہے، پنجاب کا معاملہ ہائی کورٹ میں لے کر جائیں، قومی اسمبلی کے کیس سے توجہ نہیں ہٹانا چاہتے، جسٹس مظہر عالم میاں خیل نے کہا کہ کل پنجاب اسمبلی کے دروازے سیل کر دیئے گئے تھے۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ کیا وزیراعظم پوری قوم کے نمائندے نہیں ہیں؟ صدر مملکت کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ وزیراعظم بلاشبہ عوام کے نمائندے ہیں۔جسٹس مظہر عالم خیل نے کہا کہ کیا پارلیمنٹ میں آئین کی خلاف ورزی ہوتی رہے اسے تحفظ ہوگا؟ کیا عدالت آئین کی محافظ نہیں ہے؟جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ پارلیمنٹ کی کارروائی سے کوئی متاثر ہو تو دادرسی کیسے ہوگی؟ کیا دادرسی نہ ہو تو عدالت خاموش بیٹھی رہے؟

بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ وزیراعظم کے الیکشن اور عدم اعتماد دونوں کا جائزہ عدالت نہیں لے سکتی، پارلیمان ناکام ہو جائے تو معاملہ عوام کے پاس ہی جاتا ہے، آئین کے تحفظ کیلئے اس کے ہر آرٹیکل کو مدنظر رکھنا ہوتا ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ اگر زیادتی کسی ایک رکن کے بجائے پورے ایوان سے ہو تو کیا ہوگا؟ بیرسٹر علی ظفر کا کہنا تھا کہ اگر ججز کے آپس میں اختلاف ہو تو کیا پارلیمنٹ مداخلت کر سکتی ہے؟ جیسے پارلیمنٹ مداخلت نہیں کرسکتی ویسے عدلیہ بھی نہیں کرسکتی۔

اس پر بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ وزیراعظم کا الیکشن اور تحریک عدم اعتماد کا معاملہ پارلیمنٹ کا اختیار ہے، نیشنل اسمبلی بنتی ہی اس لیے ہے اس نے اپنا اسپیکر اور پرائم منسٹر منتخب کرنا ہے، جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ علی ظفر صاحب آپ نے جس فیصلے کا حوالہ دیا ہے وہ حلف سے متعلق ہے، یہاں معاملہ حلف لینے کا نہیں رولنگ کا ہے، کہیں تو لائین کھینچنا پڑے گی، صدر مملکت کے وکیل علی ظفر نے جونیجو کیس فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ محمد خان جونیجو کی حکومت کو ختم کیا گیا، عدالت نے جونیجو کی حکومت کے خاتمہ کو غیر آئینی قرار دیا، عدالت نے اسمبلی کے خاتمہ کے بعد اقدامات کو نہیں چھیڑا۔

جسٹس مظہر عالم نے کہا کہ ہمارے سامنے معاملہ عدم اعتماد کا ہے، عدم اعتماد کے بعد رولنگ آئی، اس ایشو کو ایڈریس کریں۔چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کیوں نہیں بتاتے کہ کیا آئینی بحران ہے؟ سب کچھ آئین کے مطابق ہو رہا ہے تو آئینی بحران کہاں ہے؟وزیراعظم آئین کے مطابق کام جاری رکھے ہوئے ہیں، نگران وزیراعظم کا تقرر کا عمل بھی جاری ہے، اس سب میں بحران کہاں ہے؟ سب کچھ آئین کے مطابق ہو رہا ہے، ملک میں کہیں اور بحران ہو سکتا ہے۔

بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ میری بھی یہی گزارش ہے کہ ملک میں کوئی آئینی بحران نہیں۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ بظاہر آرٹیکل 95 کی خلاف ورزی ہوئی، اگر کسی دوسرے کے پاس اکثریت ہے تو حکومت الیکشن کا اعلان کردے، الیکشن کرانے پر قوم کے اربوں روپے خرچ ہوتے ہیں، ہر بار الیکشن سے قوم کا اربوں کا نقصان ہوگا، یہ قومی مفاد ہے۔

پنجاب اسمبلی کا علامتی اجلاس،حمزہ شہبازوزیراعلیٰ منتخب

انہوں نے مزید کہا کہ اگر اسپیکر کی رولنگ حکومت اور وزیراعظم کی مدت کی توسیع کے لیے ہوتی تو بہت غلط ہوتا، موجودہ صورتحال میں وزیراعظم کی ایڈوائس پر قومی اسمبلی تحلیل کر دی گئی۔ بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ یہاں بھی اسمبلی تحلیل کر کے انتخابات کا اعلان کردیا گیا، الیکشن کا اعلان ظاہر کرتا ہے کہ حکومتی اقدام بدنیتی نہیں تھا۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ اسمبلی کی اکثریت تحلیل نہ چاہے تو کیا وزیراعظم صدر کو سفارش کر سکتے ہیں؟

Related Articles

Back to top button