بھڑکیں مارنے والے انقلابیوں کی’ بولتی‘ کیسے بند ہوئی؟

سانحہ 9 مئی کے بعد پاکستان تحریک انصاف کے کئی رہنما سیاست سے علیحدگی کا اعلان کرچکے ہیں جبکہ متعدد رہنما مکمل طور پر خاموش ہیں۔ پی ٹی آئی کی قیادت کی گرفتاریوں کا سلسلہ ابھی تھما نہیں جبکہ سابق وزیر اعظم عمران خان اپنے بیانات میں دعویٰ کر رہے ہیں کہ ان کے 10 ہزار سے زیادہ کارکن گرفتار کیے جا چکے ہیں۔پی ٹی آئی کے رہنماؤں کی پکڑ دھکڑ میں تیزی 9 اور 10 مئی کو ہونے والے پُرتشدد مظاہروں کے بعد لائی گئی اور متعدد رہنماؤں کو ان کے گھروں سے گرفتار کر لیا گیا۔کچھ رہنماؤں کے ساتھ ایسا بھی ہوا کہ جب وہ ایک مقدمے میں جیل سے ضمانت پر رہا ہوئے تو گیٹ کے باہر انہوں نے کسی اور تھانے کے پولیس کو اپنا منتظر پایا۔
یوں جیل سے نکلتے ہی انہیں دوسرے مقدمے میں گرفتار کر لیا گیا۔اس ماحول میں جہاں تحریک انصاف کی اعلیٰ سطح کی قیادت سلاخوں کے پیچھے ہے، وہیں ایک بڑی تعداد ایسے افراد کی بھی ہے، جو گرفتار تو نہیں ہوئے لیکن انہوں نے پراسرار قسم کی خاموشی اختیار کر لی ہے۔یہ خاموشی صرف میڈیا کے محاذ پر ہی نہیں بلکہ ان میں سے بیشتر رہنماؤں کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس بھی خاموش ہو چکے ہیں۔
دوسری جانب پی ٹی آئی سے وابستہ رہنے والے کئی رہنما پریس کانفرنسیں کر کے نو اور 10 مئی کے واقعات کے مذمت کے ساتھ ساتھ پارٹی چھوڑنے کا اعلان کر رہے ہیں۔ ان میں سے کچھ تو ایسے ہیں جنہوں سیاست ہی کو خیرباد کہنے کا اعلان کر دیا ہے۔اس وقت اہم سوال یہ ہے کہ تحریک انصاف کی اعلیٰ قیادت میں شامل افراد میں سے کون کہاں ہے؟
شاہ محمود قریشی تحریک انصاف کے وائس چیئرمین ہیں، انہیں 11 مئی کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔شاہ محمود قریشی کو گرفتار کر کے راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں منتقل کیا گیا تھا۔ پاکستان کے ذرائع ابلاغ میں یہ خبریں بھی گردش کرتی رہی ہیں کہ شاہ محمود قریشی کو حکام نے مشروط ضمانت دینے کی پیشکش کی تھی جس میں انہیں ایک اقرار نامے پر دستخط کرنا تھے لیکن انہوں نے یہ شرط تسلیم نہیں کی تاہم آزاد ذرائع سے اس خبر کی تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔شاہ محمود قریشی کے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے آخری ٹویٹ 11 مئی کو کیا گیا جس میں انہوں نے ’اپنی گرفتاری سے قبل پیغام‘ دیا ہے۔
پیر کو شاہ محمود قریشی کے وکیل بیرسٹر تیمور ملک نے میڈیا کے نمائندوں کے سامنے اس خدشے کا اظہار کیا تھا کہ انہیں اڈیالہ سے اٹک جیل منتقل کیا جا رہا ہے۔لیکن بعد میں منگل کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے شاہ محمود قریشی کو رہا کرنے کا حکم جاری کر دیا۔شاہ محمود قریشی اڈیالہ جیل سے رہا ہونے کے دوبارہ گرفتار کر لیے گئے جس کے بعد پتا چلا کہ انہیں ڈی سی راولپنڈی کے حکم پر 15 دن کے لیے ایم پی او کے تحت اڈیالہ جیل میں نظربند کر دیا گیا ہے۔شاہ محمود کی مختصر رہائی اور پھر نظربندی کے درمیان انہوں نے صحافیوں کے سوالوں کے جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’تحریک انصاف میں ہوں اور رہوں گا۔
پاکستان تحریک انصاف کی رہنما ڈاکٹر شیریں مزاری کو 10 مئی کی رات ان کے گھر سے گرفتار کرنے کے بعد پہلے اسلام آباد کے ایک تھانے میں اور پھر اڈیالہ جیل منتقل کیا گیا۔شیریں مزاری کی پہلے تو اسلام آباد ہائی کورٹ سے ضمانت منظور ہوئی لیکن کچھ وقت بعد انہیں پھر گرفتار کر لیا گیا تھا۔اس کے بعد تیسری مرتبہ لاہور ہائی کورٹ کے راولپنڈی بینچ سے اگلی ضمانت کے بعد ان کے ساتھ یہی معاملہ ہوا۔
پیر کو شیریں مزاری کے وکیل انیق کھٹانہ نے میڈیا سے گفتگو میں کہا تھا کہ انہیں کچھ معلوم نہیں کی شیریں مزاری اس وقت کہاں ہیں۔منگل کو پی ٹی آئی کے رہنما فرخ حبیب نے اپنے ٹویٹ میں دعویٰ کیا تھا کہ شیریں مزاری کو پانچویں مرتبہ گرفتار کیا گیا ہے۔لیکن منگل کی شام پونے پانچ بجے شیریں مزاری نے اچانک ایک پریس کانفرنس کی اور اس میں نہ صرف تحریک انصاف بلکہ سیاست ہی چھوڑنے کا اعلان کر دیا۔شیریں مزاری نے اپنی پریس کانفرنس میں 9 اور 10 مئی کو ہونے والے پُرتشدد واقعات کی مذمت بھی کی۔
سابق وزیر داخلہ شیخ رشید احمد تحریک انصاف کے اہم اتحادیوں میں سے ہیں اور وہ گزشتہ کچھ عرصے سے عمران خان کی کھل کر حمایت کر رہے ہیں۔شیخ رشید ان دنوں ٹوئٹر پر سرگرم ہیں۔ انہوں نے آج (منگل کو) ٹوئٹر پر اپنے ایک بیان میں کہا کہ ’9 مئی کے حقیقی مجرموں کو سزا دیں، بے گناہوں کو رہا کریں۔‘قبل ازیں پیر کو انہوں نے اپنی ٹویٹ میں اعلان کیا تھا کہ ’گرفتار ہونے تک ٹوئٹر کے ذریعے قوم سے رابطہ رکھوں گا۔‘شیخ رشید کی دو تین دن کی ٹویٹس میں عمران خان کے حوالے سے کوئی خاص بات تو نہیں البتہ وہ اس وقت پارٹی بدلنے والوں کو طنز کا نشانہ بنا رہے ہیں۔
کراچی سے گرفتار ہونے والے تحریک انصاف کے رہنما فردوس شمیم نقوی دو دن قبل نے عدالت میں پیشی کے دوران میڈیا کے نمائندوں سے مختصر بات چیت لیکن لیکن انہوں نے پارٹی چھوڑنے کا کوئی عندیہ نہیں دیا۔فردوس شمیم نقوی کو کراچی سے سکھر جیل منتقل کیا گیا ہے تاہم ان کے اہل خانہ نے ان کی صحت کے مسائل کی بنیاد پر عدالت میں درخواست دائر کی ہے کہ انہیں کراچی ہی میں رکھا جائے۔
علی زیدی سابق وفاقی وزیر اور پی ٹی آئی کراچی کے اہم رہنما ہیں۔ گرفتار ہونے کے بعد انہوں نے بھی 9 اور 10مئی کے پُرتشدد واقعات کی مذمت تو کی لیکن پارٹی سے علیحدگی کا اعلان نہیں کیا بلکہ اس خیال کو مسترد کیا۔ان کے بارے میں بھی اطلاعات ہیں کہ انہیں کراچی سے جیکب آباد جیل منتقل کیا گیا ہے جبکہ ان کے اہل خانہ نے کراچی کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ میں درخواست دائر کی ہے کہ انہیں جیل مینوئل کے مطابق سہولیات دی جائیں۔
تحریک انصاف کی رہنما مسرت جمشید چیمہ اور ان کے شوہر جمشید چیمہ بھی اس وقت گرفتار ہیں ۔پیر کو ان کی وکیل نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے عندیہ ظاہر کیا تھا کہ امکان ہے کہ مسرت جمشید چیمہ اور ان کے شوہر رہائی کے بعد پارٹی سے علیحدگی کا اعلان کر دیں۔منگل کی شب شاہ محمود قریشی کے ساتھ ساتھ مسرت جمشید چیمہ اور ان کے کو بھی 15 دن کے لیے اڈیالہ جیل میں نظربند کر دیا گیا ہے۔
پی ٹی آئی کے رہنما شہریار آفریدی کو 16 مئی کو اسلام آباد میں واقع ان کے گھر سے اہلیہ سمیت گرفتار کر لیا گیا تھا۔ انہیں بھی تھری ایم پی او کے تحت گرفتار کیا گیا ہے۔دو دن بعد اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم کے نتیجے میں ان کی اہلیہ کو رہا کر دیا گیا تھا۔منگل کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں شہریار آفریدی کے وکیل نے درخواست دائر کی تھی کہ ان کے موکل سے اہل خانہ ملاقات کرنا چاہتے ہیں جس کے بعد عدالت نے انہیں ملاقات کی اجازت دے دی۔
تحریک انصاف لاہور کے رہنما اعجاز چوہدری اور میاں محمودالرشید گرفتار ہیں۔ اعجاز چوہدری کے بارے میں اطلاعات ہیں کہ وہ راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں ہیں جبکہ محمود الرشید لاہور کی کوٹ لکھپت جیل میں دہشت گردی کے مقدمے کے تحت ریمانڈ پر ہیں۔
فیاض الحسن چوہان نے کئی دن کی خاموشی کے بعد منگل کی شام اپنی خاموشی توڑ دی اور اسلام آباد پریس کانفرنس کرتے ہوئے عمران خان پر شدید تنقید کرتے ہوئے پی ٹی آئی چھوڑنے کا اعلان کر دیا تھا۔ فیاض الحسن چوہان نے اپنی پریس کانفرنس میں الزام عائد کیا کہ عمران خان کے اردگرد
بزدار کا بھی عمران سے جان چھڑانے کا فیصلہ
موجود افراد نے انہیں میرے بارے میں یہ بتایا کہ میں فوج کا آدمی ہوں۔