کسی شخص کی ہدایت پر منتخب اسمبلی کیسے تحلیل ہوسکتی ہے

چیف جسٹس عمر بندیال نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ آئین کی خلاف ورزی برداشت نہیں کرے گی، انتہائی سنگین حالات ہوں تو انتخابات کا مزید وقت بڑھ سکتا ہے۔سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پنجاب اور خیبرپختون میں انتخابات پر از خود نوٹس کیس کی سماعت نو رکنی لارجر بینچ نے کی۔
بنچ میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس مظاہر علی نقوی، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس یحییٰ خان آفریدی، جسٹس منصورعلی شاہ، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس جمال خان مندوخیل شامل تھے۔بیرسٹر علی ظفر روسٹرم پر آئے اور کہا کہ ہم صدر پاکستان سے متعلق چیزیں ریکارڈ پر لانا چاہتے ہیں جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ دو درخواستیں ہیں وہ اب آؤٹ ڈیٹ ہو چکی ہیں، اس پر وضاحت کی ضرورت ہے، 20 فروری کو صدر کے انتخابات کی تاریخ کے اعلان کے بعد صورتحال بدل گئی، کچھ سوال دونو ں اسمبلی کے اسپیکرز نے اپنی درخواستوں میں شامل کیے ہیں، سپریم کورٹ نے صرف آئینی نکتہ دیکھنا ہے اور اس پر عمل درآمد کرانا ہے۔
اٹارنی جنرل نے کیس کے لیے وقت دینے کی استدعا کی اور کہا کہ اتنے لوگوں کو نوٹس ہوگا تو کل کے لیے تیاری مشکل ہو پائے گی، چیف جسٹس نے کہا کہ کل ہم صرف چند ضروری باتوں تک محدود رہیں گے، کیس کی تفصیلی سماعت پیر کو کریں گے، آرٹیکل 224 کہتا ہے 90 روز میں انتخابات ہوں گے، وقت جلدی سے گزر رہا ہے، ہائیکورٹ میں معاملہ زیر التوا تھا مگر کوئی فیصلہ نہیں ہو پارہا تھا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ہمارے سامنے دو اسمبلیوں کے اسپیکر کی درخواستیں ہیں، ازخود نوٹس جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کے نوٹ پر لیا گیا۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ وقت کی کمی کی وجہ سے زیادہ طویل سماعت نہیں کرسکتے۔شعیب شاہین نے کہا کہ ازخود نوٹس میں اگر فیصلہ انتخابات کرانے کا آتا ہے تو سب کو فائدہ ہوگا، جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اگر عدالت فیصلہ دیتی ہے تو سب سیاسی جماعتیں فائدہ حاصل کریں گی جس پر شعیب شاہین نے کہا کہ یہ ٹائم باؤنڈ کیس ہے اس میں انتخابات کرانے کا ایشو ہے۔
جسٹس جمال جان مندوخیل نے کہا کہ کچھ آڈیو سامنے آئی ہیں، جس میں عابد زبیری کچھ ججز کے حوالے سے بات کر رہے ہیں ان حالات میں میری رائے میں یہ کیس 184(3) کا نہیں بنتا، جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ہم اس کیس میں آئینی شک پر بات کر رہے ہیں، پہلا سوال یہ ہوگا کہ اسمبلی آئین کے تحت تحلیل ہوئی یا نہیں، دوسرا سوال یہ ہے کہ اسمبلی کو بھی 184(3) میں دیکھنا چاہئے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ سیکشن 57 کے تحت صدر مملکت نے انتخابات کا اعلان کیا اس پر وکیل علی ظفر بولے کہ ہماری درخواست زیر التوا ہے اسے بھی ساتھ سنا جائے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہمارے سامنے 3 معاملات ہیں، دیکھنا ہے اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد الیکشن تاریخ دینے کا اختیار کس کو ہے؟
چیف جسٹس نے کہا کہ ہمارے سامنے ہائیکورٹ کا 10 فروری کا آرڈر تھا، ہمارے سامنے بہت سے فیکٹرز تھے جن کی بنیاد پر از خود نوٹس لیا، ہائیکورٹ میں طویل کارروائی چل رہی ہے اور وقت گزرتا جا رہا ہے، اس پر جسٹس جمال نے کہا کہ ازخود نوٹس پر تحفظات ہیں جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ازخود نوٹس بعد میں لیا پہلے سپیکرز کی درخواستیں دائر ہوئیں۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی بنچ میں تھے جس میں چیف الیکشن کمشنر کو بلایا گیا، اس پر چیف جسٹس بولے کہ بہت سی وجوہات تھیں جن کی وجہ سے ازخود نوٹس لیا گیا، آئین انتخابات کا وقت بتاتا ہے جو ختم ہو رہا ہے، ہائیکورٹ کا فورم بائی پاس کیا جا سکتا ہے اگر ایمرجنسی ہو، سپریم کورٹ کے لیے آسان تھا کہ دو دائر درخواستیں مقرر کر دیتی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ سیکشن 57 انتخابات کی تاریخ کے حوالے سے ہے، بہت سے نئے نکات آگئے ہیں جن کی تشریح ضروری ہے، سپریم کورٹ آئین کی خلاف ورزی برداشت نہیں کرے گی، انتہائی سنگین حالات ہوں تو انتخابات کا مزید وقت بڑھ سکتا ہے، ہمیں آئین کو دیکھنا ہے اس پر عمل درآمد ہو رہا ہے۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ہمارے سامنے دو درخواستیں تھیں اور سمپل تھا کہ وہ سنتے، ہم آٸین پر عمل درآمد چاہتے ہیں، سپریم کورٹ آٸین کی خلاف وزری کسی صورت برداشت نہیں کرے گا، دو درخواستیں ہیں وہ اب آوٹ ڈیٹ ہوگئی ہیں اور اس پر وضاحت کی ضرورت ہے۔
چیف جسٹ نے کہا کہ 20 فروری کو صدر کے انتخابات کی تاریخ کے اعلان کے بعد صورتحال بدل گئی، کچھ سوال دونو ں اسمبلی کے اسپیکرز نے اپنی درخواستوں میں شامل کیے ہیں، سپریم کورٹ نے صرف آئینی نکتہ دیکھنا ہے اور اس پر عملدرآمد کرانا ہے، انتحابات کا ایشو وضاحت طلب ہے ہم ارادہ رکھتے ہیں آپ سب کو سنیں، ہم نے آئندہ ہفتے کا شیڈول منسوخ کیا ہے تاکہ یہ کیس چلا سکیں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ میرے ازخود نوٹس سے متعلق کچھ تحفظات ہیں، ہمارے سامنے دو اسمبلیوں کے سپیکرز کی درخواستیں ہیں، یہ ازخود نوٹس جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کے نوٹ پر لیا گیا، اس کیس میں چیف الیکشن کمشنر کو بھی بلایا گیا ہے جو کہ فریق نہیں ہے، اٹارنی جنرل نے کیس کے لیے وقت دینے کی استدعا کی اور کہا کہ اتنے لوگوں کو نوٹس ہوگا تو کل کیلئے تیاری مشکل ہو جائے گی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کل ہم صرف چند ضروری باتوں تک محدود رہیں گے، کیس کی تفصیلی سماعت پیر کو کریں گے، آرٹیکل 224 کہتا ہے 90 روز میں انتخابات ہوں گے، اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت کے سامنے آئینی سوالات ہیں، ایڈوکیٹ جنرل کو نوٹس کیا جائے، سیاسی جماعتوں کو بھی نوٹس کیا جائے، پاکستان بار کونسل کو بھی نوٹس کیا جائے۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ کل تمام فریقین کو ایشوز بتائیں گے اور تیاری کی مہلت دیں گے، وکیل اظہر صدیق نے کہا کہ ہائیکورٹ کا ریکارڈ منگوایا جائے، عدالت نے کیس کی سماعت کل تک ملتوی کر دی۔
جسٹس مظاہر نقوی کی چھٹی اب یقینی کیوں ہو گئی؟