سہیل وڑائچ نے صلح حدیبیہ ماڈل پر ڈیل کی تجویز دے ڈالی

سینیئر صحافی سہیل وڑائچ نے کہا ہے کہ نفرتیں دشمنیاں اور لڑائیاں مسئلوں کا حل نہیں۔ حسد کرنے والے، نفرت کرنے والے یا لڑنے والے جیت بھی جائیں گے تو حسد، نفرت اور لڑائی کے جذبات کل خود ان کو کھا جائیں گے۔ مجموعی طور پر معاشرہ ،امن، صلح صفائی، نرمی اور رحم دلی سے چلتا ہے، لیکن چند مفاد پرستوں نے ہمارے معاشرے کو لڑاکا، ایک دوسرے کا دشمن اور نفرتوں کا امین بنا کر رکھ دیا ہے جس سے نہ صرف پاکستان بلکہ پاکستانیوں کا نقصان ہو رہا ہے۔
سہیل وڑائچ روزنامہ جنگ کے لیے اپنے سیاسی تجزیے میں کہتے ہیں کہ انسانی معاشرہ مختلف حالات اور واقعات سے گزرتا ہے تو اس میں کئی مرتبہ نفرت اور غصہ غالب آجاتا ہے۔ جنگیں بھی ہوتی رہی ہیں، حق اور باطل کا فیصلہ بھی ہوتا رہا ہے، مگر دنیا کی تاریخ میں کامیاب ترین ادوار صلح، امن اور مصالحت کے ہی رہے ہیں، اگر انا غالب ہو تو امن اور صلح نہیں ہو سکتی۔ لہذا ضروری ہے کہ ہم مجموعی طور پر "میں” سے جان چھڑا کر "ہم” اور "سب” پر آ جائیں۔ اس کیلئے عقل اور لچک کی ضرورت ہے جو ہمارے معاشرے میں موجود تو یے، لیک آگ بھڑکانے والے زیادہ ہیں اور بجھانے والے کم۔تاہم مجھے یقین ہے کہ بالآخر صلح، امن، مصالحت اور لچک، انا اور ضد پر غالب آجائیں گے، "میں” اور "ہم” کا سر نیچا ہوگا اور سب کا سر اونچا۔ یہیں سے امن اور خوش حالی کا دور شروع ہوگا۔
سہیل وڑائچ کا کہنا ہے کہ انسانی زندگی ہمیشہ سے متضاد خیالات اور رنگارنگ نظریات سے عبارت رہی ہے۔ زندگی گزارنے کیلئے لوگوں کے پاس متنوع چوائسز ہیں۔ کچھ لوگ’’ میں‘‘ کے قائل ہیں اور انہیں ایسا لگتا ہے کہ دنیا میں میرے سوا کچھ بھی نہیں۔ اس دنیا کا محورومرکز ’’ میں‘‘ ہوں جبکہ باقی نفوس کو میرے گرد گھومنا چاہیے۔ وہ خود کو سب سے اہم سمجھتا ہے۔ اس رویے کے لوگوں کو اپنی شخصیت کو مرکزی سمجھنے کی وجہ سے ہر واقعہ، حادثہ یا عمل اپنے ہی بارے لگتا ہے، وہ اس واقعے کی اہمیت سے قطع نظر صرف یہ دیکھتے ہیں کہ انہیں اس سے فائدہ پہنچے گا یا نقصان۔دراصل انسانوں کی سوچ انفرادی، گروہی اور اجتماعی نقطہ ہائے نظر میں بٹی ہوئی ہے، انفرادی سوچ خود غرضی اور میں پر مبنی ہوتی ہے جبکہ گروہی سوچ ہم پر مرکوز ہوتی ہے، اس سوچ کے شکار لوگ اپنے گروہ صرف اپنی پارٹی یا اپنے خاندان کے فائدے اور نقصان کو ملحوظ خاطر رکھتے ہیں، انہیں اس سے غرض نہیں ہوتی کہ ان کے خاندان کے فائدے سے ہزاروں لوگوں کا نقصان ہوگا، انہیں اس بات کی فکر بھی نہیں کہ انکی پارٹی کا نظریہ ملک کے استحکام کو فائدہ پہنچا رہا ہے یا نقصان؟ خاندانی دشمنیاں سیاسی نفرتیں اور گروہی نقصانات اسی سوچ کی وجہ سے جنم لیتے ہیں۔
سہیل وڑائچ بتاتے ہیں کہ تیسرا نظریہ کم مقبول ہے اور گھاٹے کا ہے جبکہ پہلے دونوں نظریات فائدے اور منافع کے ہیں، لیکن تاریخ کے بڑے لوگ وہی ہوتے ہیں جو اپنا خسارہ اور گھاٹا برداشت کرلیتے ہیں لیکن کسی کو نقصان نہیں پہنچاتے۔ انکے نزدیک انفرادی یاگروہی فائدہ اہم نہیں ہوتا بلکہ اجتماعی فائدہ زیادہ اہم ہوتا ہے۔ وہ صوفیاء کی طرح جیتنے کو نہیں بلکہ ہارنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس غیر مقبول نظریے کی بنیاد یہ ہے کہ ہم جس چیز کو ناکامی اور شکست تصور کر رہے ہوتے ہیں وہ دراصل کامیابی کا زینہ ہوتی ہے۔ بہت سے سیرت نگاروں نے رسول اکرمﷺ کی طرف سے صلح حدیبیہ کے بارے میں لکھا ہے۔ وہ بتاتے پیں کہ صلح کے موقع پر کئی جید صحابہ کرام کا خیال تھا کہ ہم گھاٹے کا سودا کررہے ہیں مگر تاریخ نے ثابت کیا کہ اس صلح نے عالم عرب میں اسلام کے جھنڈے گاڑ دئیے اور دشمن قبیلے بھی اسلامی قافلے میں شریک ہوگئے۔ میری ذاتی رائے میں انسانی تکبر، انا، ضد، خود غرضی اور خود پسندی جیسی سوچ بالآخر لڑائی، جنگ اور نقصان پر منتج ہوتی ہے جبکہ انکساری، مصالحت، لچک اور اجتماعی سوچ صلح، امن اور آشتی کا پیش خیمہ ثابت ہوتی ہے ۔ انسانوں کیلئے تینوں آپشنز کھلی ہیں لیکن تاریخ کا سبق یادرکھنا چاہیے کہ جنگ اور تباہی کا راستہ غیر یقینی ہوتا ہے۔
سہیل وڑائچ بتاتے ہیں کہ نپولین جیسا عظیم فاتح، واٹر لو کے میدان میں نہ صرف جنگ ہارا بلکہ تاج وتخت سے بھی ہاتھ دھو بیٹھا۔ ہٹلر نے آدھے سے زیادہ یورپ کو سرنگوں کر لیا تھا، روس کو فتح کا بھوٹ اس کے سر پر سوار نہ ہوتا تو اسے اپنے بنکر میں خود کشی نہ کرنی پڑتی۔ یاد رکھیئے کہ صلح صفائی اور مفاہمت، کمزور اور ڈرپوک لوگ نہیں کرتے۔ نہ نیلسن منڈیلا کمزور اور ڈرپوک تھا اور نہ ہی صلاح الدین ایوبی۔ دراصل امن،صلح اور مفاہمت صرف دلیر لوگ ہی کر سکتے ہیں۔ میری ناقص رائے میں بے نظیر بھٹو کی مفاہمت ، ڈیل نہیں بلکہ ایک دلیرانہ قدم تھا، گو تب اسے ’’ ڈیل ‘‘ کا نام دے کر بدنام کرنے کی کوشش کی گئی۔ لیکن یہ کوششیں مشرف کی اقتدار سے رخصتی اور بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد تاریخ کے صفحات سے گم ہو گئیں۔ اگر یہ کوشش کامیاب ہو جاتی تو اس کے نتیجے میں قومی اتحاد کو ایک نئے سول اور فوجی توازن کی شکل میں تبدیل ہوتے دیکھا جاسکتا تھا۔ تاہم افسوس کہ چند سازشیوں نے اسے ناکام بناکر ملک میں عدم استحکام کی ایسی بنیاد رکھی کہ دور دور تک مفاہمت کانام ونشان ہی مٹ گیا ہے حالانکہ قومیں اور ملک مفاہمت سے ہی آگے بڑھتے ہیں۔
سینیئر صحافی کا کہنا ہے کہ ہمارا خیبر پختونخوا فتنہ الخوارج کی جانب سے اور بلوچستان فتنہ الہندوستان کے خطرناک حملوں کی زد میں ہے۔ آئے دن کوئی نہ کوئی واقعہ یا حادثہ رونما ہوجاتا ہے، جس سے انسانی جانوں کا ضیاع ہو رہا ہے، دوسری طرف پنجاب، خیبر پختونخوا اور سندھ میں بارش نے تباہی مچارکھی ہے، نہ قدرتی آفات اور نہ پاکستان کے دشمن یہ دیکھتے ہیں کہ تباہی کا شکار ہونے والا سویلین ہے یا فوجی، نونی ہے یا انصافیا، پپلیا ہے یا جماعتیا! کسی کا بھی نقصان ہو وہ پاکستان اور پاکستانیوں کا نقصان ہے۔ لہذا اس نقصان سے بچنے کے لیے ہمیں صلح جوہی سے کام لینا ہوگا۔
