تحریک طالبان افغانستان اور پاکستان کی جنگ کی وجہ بن گئی

افغانستان کی طالبان حکومت کی جانب سے تحریک طالبان پاکستان یعنی ٹی ٹی پی کی بڑھتی ہوئی سرپرستی نے پاکستان اور افغانستان کو جنگ کی آگ میں دھکیل دیا ہے۔ دونوں ممالک کے مابین تعلق جو کبھی "تزویراتی گہرائی” اور مذہبی و تاریخی رشتوں کی بنیاد پر استوار تھا، وہ اب مسلح تصادم، کھلی جنگ اور باہمی بداعتمادی میں تبدیل ہوچکا ہے۔ مبصرین کے مطابق افغانستان میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد اسلام آباد کو امید تھی کہ سرحد پار دہشت گردی کا سلسلہ ختم ہو جائے گا، مگر اس کے برعکس، ٹی ٹی پی کے نیٹ ورک کو افغانستان میں نہ صرف محفوظ پناہ گاہیں اور سٹریٹجک مدد فراہم کی گئی۔ افغان طالبان کے غیر اعلانیہ تحفظ نے ٹی ٹی پی کو مزید طاقتور اور فعال کر دیا ہے جس کے بعد پاکستان اور افغانستان سرحدوں پر کھل کر ایک دوسرے کے آمنے سامنے آ گئے ہیں،
دفاعی ماہرین کے مطابق پاک افغان سرحد پر ہونے والی شدید جھڑپوں نے واضح کر دیا کہ اب دونوں ممالک کے مابین تعلقات محض کشیدہ نہیں رہے بلکہ عملی طور پر دشمنی کی شکل اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ تجزیہ کار زاہد حسین کے مطابق، “افغانستان اور پاکستان میں پہلے چھوٹی جھڑپیں ہوتی تھیں، اب صورتحال باقاعدہ جنگ جیسی بنتی جا رہی ہے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ دونوں ممالک کے تعلقات غیر معمولی حد تک تناؤ کا شکار ہو چکے ہیں۔” ان کے بقول، طالبان کے برسراقتدار آنے کے بعد پاکستان کو توقع تھی کہ ٹی ٹی پی کا اثر ختم ہو گا اور پاکستان میں دہشتگردانہ کارروائیاں رک جائیں گی تاہم حقیقت اس کے برعکس نکلی کیونکہ سامنے آنے والے حقائق سے پتا چلتا ہے کہ ٹی ٹی پی افغان طالبان ہی کا ایک ذیلی دھڑا ہے، اس لیے کابل حکومت ان کے خلاف کارروائی کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔”کیونکہ طالبان حکومت اگر پاکستان کے کہنے پر ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی کرتی ہے تو یہ اس کی نظریاتی بنیادوں کو کمزور کرے گی، اور اگر وہ ایسا نہیں کرتی تو پاکستان کے ساتھ تعلقات مزید بگڑیں گے۔” زاہد حسین کے بقول پاکستان کو طالبان سے توقع ہے کہ وہ ٹی ٹی پی کے جنگجوؤں کے خلاف کارروائی کرے گا۔ تاہم تجزیہ کاروں کے مطابق ‘افغان طالبان کے لیے پاکستان کے کہنے پر ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی کرنا بہت مشکل ہے، کیونکہ یہ وہ لوگ ہیں جو امریکی اور روسی افواج کے خلاف افغان طالبان کے ساتھ مل کر لڑتے رہے ہیں اس لئے افغان طالبان کبھی بھی ٹی ٹی ہی کے خلاف کوئی ایسا اقدام نہیں اٹھائیں گے جس سے یہ دہشتگرد ٹولہ ناراض ہو۔’ اُن کے بقول اس بات سے انکار نہیں کہ افغانستان میں ٹی ٹی پی کی پناہ گاہیں موجود ہیں، لیکن ٹی ٹی پی زیادہ تر کارروائیاں پاکستان سے ہی کر رہی ہے۔’
دوسری جانب پاکستانی حکام نے افغانستان سے دراندازی بارے اپنے دوٹوک مؤقف کا اعلان کر دیا ہے کہ اگر افغان سرزمین سے دہشت گردی جاری رہی تو اسلام آباد اپنی دفاعی کارروائی کا حق محفوظ رکھتا ہے۔ لیکن یہی بیانیہ کابل کے لیے اشتعال انگیز سمجھا جاتا ہے، جس نے دونوں ملکوں کے درمیان عدم اعتماد کو مزید گہرا کر دیا ہے۔ مبصرین کے مطابق پاکستان اور افغانستان کے درمیان کشیدگی صرف عسکری سطح پر محدود نہیں رہی۔ پاکستان میں غیر قانونی افغان پناہ گزینوں کے خلاف جاری کریک ڈاؤن کو بھی اسی بحران کے تناظر میں دیکھا جا رہا ہے۔ کراچی، دادو اور نواب شاہ سمیت مختلف شہروں میں سینکڑوں افغان شہری گرفتار کیے جا چکے ہیں، جنہیں ملک بدری کے لیے کیمپوں میں منتقل کیا جا رہا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان سرحدی تعلقات صرف جغرافیائی نہیں بلکہ سماجی اور خاندانی رشتوں سے بھی جڑے ہوئے ہیں۔ اس لئے اگر دونوں ممالک کی سرحدیں بند رہیں یا جھڑپیں جاری رہیں تو خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے سرحدی اضلاع میں انسانی بحران پیدا ہو سکتا ہے، جہاں ہزاروں خاندان دونوں طرف رشتوں میں بندھے ہوئے ہیں۔” دفاعی ماہرین کے بقول افغان وزیرِ خارجہ امیر خان متقی کے حالیہ دورہ بھارت نے بھی صورتحال کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ متقی کا “دارالعلوم دیوبند” جانا اور بھارت کے ساتھ تعلقات کو “روشن مستقبل” قرار دینا اس تاثر کو تقویت دیتا ہے کہ کابل اب اسلام آباد سے سفارتی فاصلہ اختیار کر رہا ہے۔ “پہلے افغان طالبان کا سیاسی قبلہ پاکستان تھا، اب وہ دلی کی طرف جھک رہے ہیں۔”
حالیہ پاک افغانستان کشیدگی کے حوالے سے عالمی طاقتوں نے خاموشی اختیار کر رکھی ہے صرف ایران نے دونوں ممالک میں تصفیہ کرانے کیلئے ثالثی کی پیشکش کی ہے ایسے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا چین اس حوالے سے کوئی کردار ادا کر سکتا ہے؟ مبصرین کے مطابق چین بہت محتاط انداز میں اپنی خارجہ پالیسی چلاتا ہے، لہذا ایسا نہیں لگتا کہ وہ ان دونوں ملکوں کے معاملات بہتر بنانے کے لیے کوئی ثالثی کرے گا۔ تاہم چینی وزارتِ خارجہ نے پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات بہتر کرنے کے لیے تعمیری کردار’ ادا کرنے کی پیش کش کی ہے۔ ترجمان چینی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ چین کو امید ہے کہ دونوں ممالک ‘ایک دوسرے کے خدشات مذاکرات اور بات چیت کے ذریعے حل کریں گے اور تنازع کو آگے بڑھانے سے گریز کریں گے۔’تاہم تجزیہ کار سمیع یوسفزئی سمجھتے ہیں کہ’سعودی عرب، قطر یا امریکہ اس معاملے میں اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ جیسا کہ صدر ٹرمپ نے بھی یہ کہا کہ اُن کی ان دونوں ملکوں کے درمیان ہونے والی جھڑپ پر نظر ہے.
دفاعی ماہرین کے مطابق زمینی حقیقت یہ ہے کہ پاک افغان تعلقات ایک خطرناک موڑ پر پہنچ چکے ہیں۔ جہاں ایک طرف طالبان حکومت اپنے نظریاتی رفقاء یعنی ٹی ٹی پی کے خلاف جانے سے گریزاں ہے، اور دوسری طرف پاکستان اپنے دفاع اور داخلی سلامتی کے لیے مزید انتظار کا متحمل نہیں ہو سکتا ایسے میں اگر اس کشیدگی کو جلد قابو نہ کیا گیا، تو جنوبی ایشیا ایک نئی اور غیر متوقع جنگ کی لپیٹ میں آ سکتا ہے۔
