افغانستان بار بار پاکستان سے پنگے بازی کیوں کر رہا ہے؟

افغانستان اور پاکستان کے تعلقات میں کشیدگی انتہا پر پہنچنے کے بعد اس خدشے کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ یہ سلسلہ روکا نہ گیا تو دونوں ہمسایہ ممالک کے مابین باقاعدہ جنگ بھی چھڑ سکتی ہے۔ دفاعی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ دہلی اور کابل کا وقتی اتحاد بھی خطے میں ایک نئی جنگ کا آغاز بن سکتا ہے، جس میں اصل نقصان افغانستان اور پاکستان کے عوام کو اٹھانا پڑے گا جبکہ فائدہ صرف بھارت کو ہوگا۔

افغان وزیرِ خارجہ امیر خان متقی کا دورۂ بھارت خطے میں ایک نئی سفارتی چال کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ مبصرین کے مطابق یہ دورہ دراصل دشمن کے دشمن سے دوستی کے مترادف ہے، یعنی بھارت اور طالبان ایک ایسے وقت میں قریب آ رہے ہیں جب کابل اور اسلام آباد کے درمیان اعتماد کی فضا تقریباً ختم ہو چکی ہے اور سرحدی جھڑپیں شدت اختیار کرتی جا رہی ہیں۔ اگرچہ بھارت نے ابھی تک طالبان کی افغان حکومت کو باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کیا، لیکن نئی دہلی میں افغان وزیرِ خارجہ کا پرتپاک استقبال، مشترکہ پریس کانفرنس اور باہمی تعاون کے معاہدے اس بات کا ثبوت ہیں کہ دونوں ممالک ایک نئی سفارتی راہ پر گامزن ہیں۔

افغان وزیر خارجہ کے دورہ انڈیا کے دوران اور اس کے فوراً بعد پاک افغان سرحدی جھڑپوں نے صورتحال کو مزید سنگین بنا دیا، پاکستانی دفاعی تجزیہ کار افغان سیکیورٹی فورسز کی جانب سے ہونے والے بلاجواز حملوں کو نئی دہلی کی پشت پناہی سے جوڑ رہے ہیں۔

دلچسپ امر یہ ہے کہ پاک انڈیا دوستی کی سفارتی کوششیں ایک ایسے وقت میں کی جا رہی ہیں جب بھارت کی قوم پرست تنظیم آر ایس ایس اپنی سو سالہ تقریبات منا رہی ہے۔ افغان طالبان اور آر ایس ایس دونوں ہی جدیدیت، خواتین کی آزادی، اور مغربی تہذیب کو اخلاقی زوال کا سبب سمجھتے ہیں۔ ان کے نزدیک خواتین کا کردار محدود، معاشرتی نظم مذہبی اور ریاستی تشخص ثقافتی یکسانیت پر مبنی ہونا چاہیے۔ اس طرح کا فکری ملاپ آج انڈیا اور افغانستان کی دوستی کی صورت میں عملی شکل اختیار کرتا دکھائی دے رہا ہے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق تاریخ گواہ ہے کہ بھارت اور پاکستان کے تعلقات ہمیشہ نظریاتی کشمکش سے زیادہ عملی مصلحتوں پر استوار رہے ہیں۔ جنرل ضیاءالحق کے آمرانہ دور میں، جب پاکستان کو مذہبی شدت پسندی کے راستے پر ڈال دیا گیا تھا، تب آر ایس ایس سے منسلک بھارتی وزیرِ خارجہ اٹل بہاری واجپائی نے ضیاء جنتا کے ساتھ غیر معمولی گرمجوشی دکھائی۔ واجپائی نے 1978 میں پاکستان کا دورہ کیا مگر بھٹو کی رہائی کا مطالبہ نہیں کیا، حالانکہ پوری دنیا ضیا کے اس آمرانہ فیصلے کی مخالفت کر رہی تھی۔ بعدازاں، بھارت کے وزیرِاعظم مرارجی ڈیسائی کو ضیاء نے پاکستان کے اعلیٰ ترین سول ایوارڈ سے بھی نوازا تھا، ایسی مثال بھارت پاکستان تعلقات کی تاریخ میں نایاب ہے۔

بھارت میں آر ایس ایس کی فکری بنیاد تاریخی مسلم حکمرانوں کی مخالفت پر استوار ہے، جبکہ طالبان انہی مسلم شخصیات، خصوصاً بابر اور تیمور، کو فخر کا حصہ سمجھتے ہیں۔ لیکن آج انہی دونوں انتہاپسند رجحانات کے درمیان وقتی مفادات نے فاصلہ کم کر دیا ہے۔ یہی تضاد نریندر مودی کے دور میں بھی دیکھا گیا جب وہ وسط ایشیا کے ان ممالک سے قریبی تعلقات بنا رہے تھے جن کے قومی ہیرو وہی مسلم فاتحین تھے جنہیں بھارت میں ’’غاصب‘‘ کہا جاتا ہے۔ اسی طرح مودی حکومت عرب دنیا سے معاشی تعلقات بڑھانے میں بھی پیش پیش ہے، حالانکہ آر ایس ایس کا بیانیہ ہمیشہ عرب اثرات کو ’’غیر بھارتی‘‘ قرار دیتا رہا ہے۔

یوں دیکھا جائے تو طالبان اور آر ایس ایس کے مابین فکری رشتہ مذہب سے زیادہ سماجی کنٹرول اور قدامت پسندی پر قائم ہے۔ افغان وزیرِ خارجہ کا دورۂ بھارت محض سفارتی رابطہ نہیں بلکہ ایک علامتی واقعہ ہے، ایک ایسا لمحہ جب خطے کے دو مختلف انتہاپسند بیانیے اپنی داخلی کمزوریوں کو چھپانے کے لیے ایک دوسرے کا سہارا لے رہے ہیں۔ طالبان حکومت بھارت کے ذریعے بین الاقوامی سطح پر قبولیت حاصل کرنا چاہتی ہے، جبکہ مودی سرکار افغانستان میں اپنا اثر بڑھا کر پاکستان پر دباؤ ڈالنے کی حکمتِ عملی اختیار کر رہی ہے۔ تاہم یہ قربت زیادہ دیرپا نہیں لگتی، کیونکہ دونوں فریقین کی نظریاتی بنیادیں مختلف ہیں اور تاریخی تجربات بتاتے ہیں کہ مصلحت کی بنیاد پر بننے والے اتحاد زیادہ دیر نہیں چلتے۔

 

افغانستان اور بھارت کے تعلقات میں حالیہ گرمی دراصل جنوبی ایشیا میں طاقت کے نئے توازن کی تلاش ہے۔ پاکستان کے لیے یہ لمحہ غور و فکر کا ہے کہ آیا اسے اپنی سفارتی حکمتِ عملی ازسرِنو ترتیب دینی ہوگی یا محض ردعمل کی سیاست سے کام چلانا ہوگا۔ اگر اسلام آباد نے اپنی مغربی سرحدی پالیسی میں دوراندیشی نہ دکھائی تو نئی دہلی اور کابل کا وقتی اتحاد بھی خطے میں ایک نئی ’’محدود سرد جنگ‘‘ کا آغاز بن سکتا ہے، جس میں اصل نقصان افغانستان اور پاکستان دونوں کے عوام کو اٹھانا پڑے گا۔

Back to top button