پاکستان اور بھارت کی دوبارہ جنگ کا خدشہ کیوں بڑھنے لگا ؟

بھارتی رہنماؤں کے حالیہ جارحانہ اور دھمکی آمیز بیانات سے ایک بار پھر خطے میں جنگ کے بادل منڈلانے لگے ہیں تاہم دفاعی ماہرین کے مطابق مئی کے تصادم میں پاکستان کے ہاتھوں ٹھکائی کے بعد بھارت کے دوبارہ کوئی بڑا رسک لینے کے امکانات کم ہیں تاہم محدود سرحدی تصادم یا “سرجیکل سٹرائیک” جیسے خطرات کو رد نہیں کیا جا سکتا۔ بھارت کی اشتعال انگیزی اگر جاری رہی تو دونوں ممالک کے مابین کشیدگی کسی بڑے بحران میں بدل سکتی ہے کیونکہ پاکستان پہلے ہی واضح کر چکا ہے کہ کسی بھی ممکنہ بھارتی جارحیت کا بھرپور جواب دیا جائے گا۔ ایسے میں اگر نئی دہلی نے دوبارہ طاقت آزمانے کی غلطی کی تو نتیجہ دونوں ملکوں کے لیے عسکری، معاشی اور سفارتی تباہی کی صورت میں نکل سکتا ہے جس کا خمیازہ پورے خطے کو بھگتنا پڑے گا۔
نئی دہلی کی جانب سے متعصبانہ بیانات کے بعد سے پاکستان اور بھارت کے درمیان لفظوں کی جنگ چھڑ چکی ہے۔ بھارتی رہنماؤں کی حالیہ دھمکی آمیز بیانات نے نہ صرف خطے کے امن کو خطرے میں ڈال دیا ہے بلکہ بین الاقوامی برادری میں بھی تشویش کی لہر دوڑا دی ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ بیانات محض وقتی سیاسی فائدے کے لیے نہیں بلکہ بھارت کی نئی عسکری حکمتِ عملی اور اندرونی سیاسی دباؤ کا نتیجہ معلوم ہوتے ہیں جس کا بنیادی ہدف خطے میں اپنی اجارہ داری قائم کرنا ہے۔
واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے بھارتی قیادت کے تین انتہائی اشتعال انگیز بیانات نے ماحول کو مزید خراب کر دیا ہے۔ بھارتی آرمی چیف جنرل اپیندر دویدی نے پاکستان کو “نقشے سے مٹانے” جیسی خطرناک زبان استعمال کی۔ ان کا کہنا تھا کہ بھارت اب وہ “تحمل” نہیں دکھائے گا جو اُس نے آپریشن سندور کے دوران دکھایا تھا، اس لئے فوج کو کسی بھی لمحے کارروائی کے لیے تیار رہنے کا حکم دے دیا گیا ہے۔ اس کے فوراً بعد وزیرِ دفاع راج ناتھ سنگھ نے سر کریک کے متنازع علاقے میں پاکستان پر فوجی سرگرمیوں کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ اگر پاکستان نے وہاں “کوئی حرکت کی” تو بھارت ایسا جواب دے گا کہ “تاریخ اور جغرافیہ دونوں بدل جائیں گے۔”اسی تسلسل میں بھارتی ایئر فورس چیف امر پریت سنگھ نے ایک غیر مصدقہ دعویٰ کیا کہ مئی کی جھڑپ کے دوران بھارت نے 9 سے 10 پاکستانی لڑاکا طیارے مار گرائے تھے، اب بھی بھارتی فضائیہ کسی بھی وقت پاکستان کے اندر گہرائی تک حملہ کر سکتی ہے۔
پاکستان نے ان بھارتی بیانات پر شدید ردعمل دیا۔ آرمی چیف فیلڈ مارشل عاصم منیر کی صدارت میں منعقدہ اعلیٰ سطحی اجلاس میں واضح کیا گیا کہ اگر بھارت نے کوئی نیا ہتھکنڈا استعمال کرنے کی کوشش کی تو پاکستان اس کا “فوری اور مؤثر جواب” دے گا۔ آئی ایس پی آر نے بھارتی فوجی قیادت کی “جنگی زبان” کو “جارحیت قرار دیتے ہوئے خبردار کیا کہ “نقشے سے مٹانے” کی بات کرنے والوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ یہ عمل یک طرفہ نہیں ہوگا۔
بین الاقوامی امور کے ماہرین کے مطابق بھارت کی حالیہ جارحانہ پالیسی کے پیچھے تین بڑے عوامل کارفرما ہیں۔ بی جے پی ہمیشہ انتخابی مہم کے دوران پاکستان مخالف بیانیہ استعمال کرتی رہی ہے۔ چونکہ بہار اور مغربی بنگال میں ریاستی انتخابات قریب ہیں، مودی حکومت اپنے ووٹرز کو متحرک کرنے کے لیے یہی حربہ آزما رہی ہے۔ بی جے پی کی سیاست اسلاموفوبیا اور پاکستان دشمنی پر کھڑی ہے۔ جب داخلی محاذ پر ناکامیاں بڑھتی ہیں تو بھارت اپنے عوام کا غصہ پاکستان کی طرف موڑ دیتا ہے۔”
دفاعی ماہرین کا مزید کہنا ہے کہ مئی کی جھڑپ میں بھارت کو جس طرح سبکی کا سامنا کرنا پڑا، اس کے بعد نئی دہلی اپنی عسکری ناکامی چھپانے کے لیے بلند بانگ دعوے کر رہی ہے۔ “یہ بیانات بھارتی فوج کے مورال کو بحال کرنے اور عوامی تاثر بدلنے کی کوشش ہیں، ورنہ زمینی حقیقت یہ ہے کہ بھارت کسی کھلی جنگ کا متحمل نہیں ہو سکتا۔”ان کا مزید کہنا ہے کہ دوسری جانب یہ حقیقت بھی سب کے سامنے عیاں ہے کہ بھارت کو اب وہ عالمی حمایت حاصل نہیں رہی جو چند برس قبل تھی۔ “چین، سعودی عرب اور امریکا کے ساتھ پاکستان کے تعلقات ایک نئے توازن کی طرف جا رہے ہیں۔ بھارت کے لیے اس بدلتے منظرنامے میں جنگ چھیڑنا خودکشی کے مترادف ہوگا۔”
سفارتی ماہرین کے بقول امریکا اور چین اس وقت خطے میں طاقت کے توازن کے نازک مرحلے پر ہیں۔ واشنگٹن اسلام آباد کے ساتھ دفاعی شراکت داری بحال کر رہا ہے جبکہ بیجنگ کھل کر پاکستان کے ساتھ کھڑا ہے۔ ایسے میں بھارت کی کسی مہم جوئی کو عالمی سطح پر پذیرائی نہیں ملے گی اور بھارت کو منہ کی کھانی پڑے گی اس لئے لگتا نہیں بھارت پاکستان سے کوئی پنگا لے گا کیونکہ بھارت تیزی سے بین الاقوامی تنہائی کا شکار ہو رہا ہے اور پاکستان کے مقابلے میں اپنی سفارتی برتری کھو رہا ہے۔”
دفاعی ماہرین کے مطابق پاکستان اور بھارت کے مابین مکمل جنگ کا امکان فی الحال کم ہے، تاہم “محدود سرحدی تصادم” یا “سرجیکل اسٹرائیک” جیسے اقدامات کو رد نہیں کیا جا سکتا۔ تاہم بعض دیگر تجزیہ کاروں کے مطابق بھارت کی موجودہ اشتعال انگیزی محض وقتی سیاسی فائدے کے لیے نہیں بلکہ ایک خطرناک رجحان کی نشاندہی کرتی ہے جہاں داخلی سیاست، عسکری کمزوری اور سفارتی دباؤ مل کر پورے خطے کو بحران کی طرف دھکیل سکتے ہیں۔ اگر دونوں ممالک نے تحمل اور مکالمے کا راستہ اختیار نہ کیا تو جنوب ایشیا ایک بار پھر جنگ کے دہانے پر پہنچ سکتا ہے تاہم اس بار اس کا انجام 1971 یا کارگل سے کہیں زیادہ سنگین ہو گا۔ ماہرین کے مطابق بھارتی حکومت پر اندرونی دباؤ اسے بغیر سوچے سمجھے اقدامات کرنے پر اُکسا سکتا ہے۔اس لئے پاکستان کو ہمیشہ چوکس اور ہر ممکن صورت حال کے لیے تیار رہنا ہوگا۔
