نئے انتخابات کب اور کیوں؟
تحریر : سلیم صافی
بشکریہ: روزنامہ جنگ
دونوں پارٹیاں ایک جیسی ہوگئیں۔2018 میں پی ٹی آئی کو اسٹیبلشمنٹ نے جعلی مینڈیٹ دلوایا تھا اور اُس وقت مسلم لیگ (ن) کو اس کے حق سے محروم کردیا گیا تھا۔ پی ٹی آئی کے مطابق اب کی بار مسلم لیگ (ن) کو جعلی مینڈیٹ دلوایا گیا اور پی ٹی آئی کو اُس کے حق سے محروم کر دیا گیا۔ پہلے نون لیگ کی قیادت نے قیدو بند کی صعوبتیں جھیلیں اور اب پی ٹی آئی کی قیادت نے۔ یوں دونوں برابر ہو گئی ہیں اس لئے محاذ آرائی کی بجائے دونوں کو اب بات چیت کی طرف آنا چاہئے۔
پی آٹی آئی پر اب ثابت ہونا چاہئے کہ احتجاج اور دھرنوں کے ذریعے وہ اپنا مقصد حاصل نہیں کر سکتی کیونکہ یہ 2014 نہیں بلکہ 2024 ہے اور اسٹیبلشمنٹ اُس کی بجائے حکومت کے ساتھ کھڑی ہے۔ لیکن مسلم لیگ (ن) کی بھی یہ خوش فہمی ہوگی کہ وہ آرام سے پانچ سال اقتدار مکمل کر لے گی کیونکہ ابھی تو صرف پی ٹی آئی نے احتجاج کیا ہے۔ سب سے زیادہ سٹریٹ پاور کے حامل مولانا فضل الرحمان تو ابھی میدان میں نہیں آئے۔ کل وہ بھی دھرنے کا اعلان کر سکتے ہیں۔
مختصر الفاظ میں تباہ حال معیشت کی بحالی کیلئے سیاسی استحکام ضروری ہے اور سیاسی استحکام کے بغیر معاشی استحکام نہیں آ سکتا۔ اس لئے دونوں جماعتوں کو جلد از جلد مذاکرات کی میز پر بیٹھنا چاہئے کیونکہ اس کے بغیر چارہ نہیں۔
مذاکرات جن نکات پر ہوں ان میں ایک نکتہ یہ بھی ہو کہ نئے انتخابات کب کرائے جائیں کیونکہ پی ٹی آئی یہ کہتی ہے کہ نون لیگ نے اس کا مینڈیٹ چرایا ہے۔ دوسری بات پی ٹی آئی والے اپنے لیڈر اور 9مئی کے گرفتار شدگان کا ذکر کرتے ہیں تو یہ بھی مذاکرات کا موضوع ہونا چاہئے۔
البتہ مذاکرات صرف ان دو جماعتوں کے نہیں بلکہ تمام قابل ذکر جماعتوں کے نمائندوں کے ہونے چاہئیں۔ مثلا ًان میں پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم، جے یو آئی، جماعت اسلامی اور قوم پرست جماعتوں کے نمائندے بھی شامل ہوں۔ کیونکہ پیپلز پارٹی کے سوا باقی سب جماعتوں کو بھی یہ شکایت ہے کہ ان کے خلاف دھاندلی کی گئی۔
ان مذاکرات میں پہلے یہ طے کرنا ہے کہ موجودہ حکومت کب تک رہے؟ ایک تجویز یہ ہو سکتی ہے کہ یہ بھی اتنی مدت گزارے جتنی پی ٹی آئی نے گزاری تھی۔ دوسرا کام انتخابی اصلاحات کا ہو اور ایسی قانون سازی کی جائے کہ دھاندلی کا تدارک ہو سکے۔
لارڈ میکالے، بشریٰ بی بی اور نسیم حجازی
جو باتیں میں نے لکھی ہیں یہ بظاہر ناممکن ہیں اور ہر فریق کیلئے قبول کرنا مشکل ہے لیکن سیاست ممکنات کا نام ہے۔ یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) قبل از وقت حکومت کیوں چھوڑے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ موجودہ حالات میں جب ہر ہفتے دھرنے اور احتجاج ہوں، تو وہ کیسے اچھی حکمرانی کر سکے گی۔ مذاکرات کی صورت میں انہیں روز روز کی اپوزیشن کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ بغیر مذاکرات کے وہ اقتدار چلانے کی کوشش کریں گے تو وقت کے ساتھ ساتھ ان کے مقابلے میں زیادہ سے زیادہ آوازیں اٹھیں گی۔ ابھی تو جے یو آئی میدان میں نہیں۔
اسی طرح سب سے بڑا چیلنج بلوچستان ہے اور وہاں کی سیاسی جماعتیں بھی انتخابی نتائج کو نہیں مانتیں۔ یوں مسلم لیگ ن پانچ سال اپوزیشن کے حملوں کے ساتھ بے یقینی کی کیفیت میں حکومت کرنے کی بجائے ساڑھے تین سال کم و بیش آرام سے حکومت حاصل کرلے گی۔ پی ٹی آئی کو مذاکرات کا یہ فائدہ ہوگا کہ انہیں دھرنوں کے مشکل کام کی بجائے مذاکرات کا آسان کام کرنا پڑ جائے گا۔ ہوسکتا ہے وہ جلسے جلوسوں کے ذریعے پانچ سال میں حکومت نہ گرا سکے اور پارٹی بھی مشکلات کی شکار رہے۔ اس سے بہتر ہے کہ مذاکرات کر کے حکومت کی مدت کچھ کم کرائے اور مشکلات سے چھٹکارا بھی پائے۔ اسی طرح جے یو آئی ور دیگر جماعتوں کو بھی یہ فائدہ ہو گا کہ وہ اگلے انتخابات کو دھاندلی سے پاک کرنے کیلئے حکومت کے ساتھ کوئی منصوبہ بنا سکیں۔