اشتہاری سے گورنر سندھ بننے والا کامران ٹیسوری کس کا بندہ ہے؟

معروف لکھاری اور تجزیہ کار وسعت اللہ خان نے کہا ہے کہ ایک زمانے میں اشتہاری قرار پانے والے گورنر سندھ کامران خان ٹیسوری میں کچھ تو ہے کہ اسٹیبلشمنٹ سے لے کر ڈاکٹر فاروق ستار تک سب ہی ان پر لٹو ہیں۔ پیپلز پارٹی کتنے بھی دانت پیستی رہے اور بھلے ایم کیو ایم کے دیگر رہنما ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر کسی مجبور بہو کی طرح کچھ بھی بڑ بڑ کرتے رہیں، ٹیسوری کا کلہ پکا ہے اور جب تک کامران ٹیسوری کا کلہ قائم ہے، کوئی شخص ان کی منجی ٹھوکنے کی جرات نہیں کر سکتا۔
بی بی سی اردو کے لیے اپنے سیاسی تجزیے میں وسعت اللہ خان کہتے ہیں کہ ٹیسوری تین برس سے گورنر ہاؤس سندھ میں براجمان ہیں جس کی اصل وجہ ان کے عسکری روابط ہیں۔ موصوف نے نہ صرف عام آدمی کے لیے گورنر ہاؤس کے دروازے کھول دیے بلکہ وہ غربا میں راشن بھی بانٹتے ہیں، ڈبے میں پڑنے والی ایک، ایک عوامی درخواست خود پڑھ کے ترنت احکامات جاری کرتے ہیں۔ موصوف لگی لپٹی بھی نہیں رکھتے۔ اسکے علاوہ عام آدمی کی خوشی کے لیے کبھی ناچ گانا بھی کر لیتے ہیں۔ اسی لیے سوشل میڈیا پر اکثر وائرل رہتے ہیں۔ ان دنوں ان کی جو وڈیوز وائرل ہیں ان میں سے ایک میں آپ فرما رہے ہیں کہ ‘ووٹ سوچ کر دینا۔ کیا فرق پڑتا ہے۔ پہلے بھی تو دیا تھا۔’ پھر ٹیسوری بھائی نے یومِ آزادی پر موٹر سائیکل ریلی کی قیادت کرتے ہوئے دشمن کو یوں للکارا کہ ’بھارتیوں! کراچی میں 50 لاکھ بائیکرز موجود ہیں۔ اگر تم آئندہ میلی آنکھ اٹھائی تو ان میں سے 40 لاکھ موٹر سائیکل سوار میری قیادت میں انڈیا میں گھس جائیں گے۔ انشااللہ۔‘
وسعت اللہ خان بتاتے ہیں کہ اس کے بعد ٹیسوری بھائی نے گورنر ہاؤس میں لگے ’معرکہِ حق میوزیکل ایوننگ‘ کے سٹیج سے یہ خبر بھی بریک کی کہ ’بھائی واپس آ رہے ہیں کراچی کو ٹھیک کرنے۔‘ موصوف کا اشارہ الطاف بھائی کی طرف تھا۔ اس پر مجمع میں تو بجلی دوڑ گئی مگر ٹیسوری بھائی کی ایم کیو ایم پاکستان کو کرنٹ لگ گیا۔ چنانچہ اگلے روز ٹیسوری سے ہی تردید کروائی گئی کہ ‘میرا یہ مطلب نہیں تھا جو نکالا جا رہا ہے’۔ وسعت اللہ خان بتاتے ہیں کہ ٹیسوری کا خاندانی کاروبار تو سونے اور زیورات کا ہے۔ مگر وہ اپنی قسمت بھی غالباً سونے کے پانی سے لکھوا کے لائے ہیں۔ ان کا اوپر کی جانب سفر 2004 میں وزیرِ اعلی ہاؤس سے شروع ہوا جب ارباب غلام رحیم کو پرویز مشرف نے سندھ کا وزیرِ اعلی بنایا۔ ارباب صاحب نہ صرف علمِ نجوم اور چلہ کشی میں دلچسپی رکھتے تھے بلکہ فروغِ دین کے بھی وکیل تھے۔ ٹیسوری بھائی نے جانے کیا تسبیح پھیری کہ ارباب رحیم نے ان کے بھائی عرفان ٹیسوری کو ’گولڈ سٹی پروجیکٹ‘ کے نام پر ایک تاریخی قبرستان کی حدود میں پڑنے والے 80 ایکڑ اور صفورا میں 54 ایکڑ، ان کے والدِ محترم اختر علی خان کے نام پر الاٹ کر دیے۔
یوں ٹیسوری خاندان کو قبرستان کی زمین راس آ گئی۔ لیکن حکومت بدلی تو لوگوں کی آنکھیں بھی بدل گئیں۔ کسی دل جلے جیالے نے سندھ اسمبلی کی غلام گردش میں سابق وزیرِ اعلی ارباب غلام رحیم کو جوتا مار دیا۔ اس کے بعد وہ عوام میں نظر نہیں آئے۔ پیپلز پارٹی کی نئی سرکار محبانِ ارباب کے پیچھے لگ گئی۔ اپریل 2007 میں نیب نے ٹیسوری ٹریڈنگ کمپنی کے خلاف طلائی زیورات کی ایکسپورٹ کے معاملے میں 17 کروڑ 20 لاکھ روپے کے ڈیفالٹ کی انکوائری شروع کر دی۔ سال 2017 تک یہ کیس سندھ ہائی کورٹ کے حکمِ امتناعی کے ساتھ معلق رہا۔ پھر یہ خبر شائع ہوئی کہ گولڈ سٹی لینڈ فراڈ کیس میں ماخوز کامران ٹیسوری اس وقت فرار ہو گئے جب پولیس انھیں پروجیکٹ کی نشاندہی کے بعد 18 جون 2008 کو مکلی سے ایک اور کیس کے سلسلے میں منتقل کر رہی تھی۔
وسعت اللہ خان کہتے ہیں کہ ان کے فرار کے بعد کامران ٹیسوری کی فیملی نے عدالت میں ایک پٹیشن دائر کرتے ہوئے یہ دعوی کیا کہ کامران فرار نہیں ہوئے بلکہ انھیں کراچی سے اغوا کیا گیا ہے۔ چنانچہ ایک مقامی عدالت نے کامران ٹیسوری کے اغوا کا پرچہ درج کرنے کا حکم دیا۔ اس عدالتی حکم کے تین روز بعد 26 جولائی 2008 کو ایس پی کیماڑی راؤ انوار کے حوالے سے یہ خبر شائع ہوئی کہ گذشتہ روز ہاکس بے کے ساحل پر گرفتاری سے بچنے کے لیے پولیس پارٹی پر فائرنگ کے بعد مفرور کامران ٹیسوری، ان کے بھائی عمران ٹیسوری اور ایک دوست خالد صدیقی کے خلاف ڈاکیارڈ تھانے میں پرچہ درج کر لیا گیا ہے۔ پھر خبر آئی کہ غیر قانونی اسلحہ رکھنے کے الزام میں گزری تھانے اور منشیات رکھنے کے الزام میں ٹیسوری برادران کے خلاف پریڈی تھانے میں ایک اور پرچہ کاٹا گیا ہے۔
پانچ نومبر کو پولیس نے کامران ٹیسوری کو اسلام آباد سے کراچی پہنچنے پر گرفتار کر کے ان کی جوڈیشل کسٹڈی لے لی اور 9 روز بعد سیشن جج ساؤتھ نے انھیں پچاس ہزار روپے ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیا۔ کامران بھائی کی مشکلات تب ختم ہوئیں جب ڈاکٹر فاروق ستار مسلم لیگ فنکشنل چھڑوا کر انھیں فروری 2017 میں ایم کیو ایم پاکستان میں سینیٹ کے ٹکٹ کے وعدے پر لے آئے اور ترنت رابطہ کمیٹی کا رکن اور پھر ڈپٹی کنوینر بنا دیا۔ اس پر فاروق بھائی کے دیگر ساتھی طیش میں آ گئے۔ رابطہ کمیٹی کے ایک رکن نے کہا پارٹی برائے فروخت نہیں۔ دوسرے نے کہا پیرا شوٹ سے اترنے والے نہیں چلیں گے۔ سینیئر ترین رہنما فاروق ستار نے ‘مہمان’ کے آگے اس سبکی کو دل پر لے لیا۔ مگر کامران ٹیسوری صوبائی اسمبلی کی ایک نشت کے ضمنی انتخاب کا ٹکٹ لینے میں کامیاب ہو گے۔ البتہ وہ پیپلز پارٹی کے امیدوار سعید غنی کے 23840 ووٹوں کے مقابلے میں 18106 ووٹ لے پائے۔ اس شکست سے پارٹی میں فاروق ستار کی مزید سبکی ہوئی۔ چنانچہ وہ اپنا دھڑا اٹھا کے اپنے پی آئی بی کالونی کے گھر لے آئے۔
وسعت اللہ خان بتاتے ہیں کہ اس کے بعد روٹھنے منانے اور پھر روٹھنے کا سلسلہ جاری رہا۔ اس دوران جانے کیسے یہ چمتکار بھی ہوا کہ کامران ٹیسوری کو مارچ 2018 کے سینیٹ انتخابات کے لیے ٹکٹ مل گیا مگر وہ پھر ہار گئے۔ اس پر ٹیسوری کا دل ٹوٹ گیا اور ان کا نام سرخیوں سے بتدریج اوجھل ہونے لگا۔ جولائی 2018 میں ایم کیو ایم پی کے دونوں دھڑے ایک ہو کر الیکشن لڑے مگر پی ٹی آئی چونکہ ڈارلنگ جماعت تھی لہذا کراچی کی اکیس میں سے چار سیٹیں ہی ایم کیو ایم پی کے ہاتھ آئیں اور پھر یہ حکم بھی ملا کہ بنا چوں چراں عمران کی قیادت میں مخلوط حکومت کا حصہ بننا ہے۔ اپریل 2022 میں پونے چار سال بعد عمران کے ستارے گردش میں آ گئے۔ عدالت رات بارہ بجے کھل گئی۔ پارلیمنٹ کے سامنے قیدیوں کو لے جانے والی گاڑیاں لگ گئیں۔ قالین الٹا ہو گیا۔ خان کی چھٹی ہو گئی اور ایم کیو ایم شہباز شریف کی عبوری حکومت میں شامل ہو گئی۔
وسعت اللہ خان بتاتے ہیں کہ ستمبر 2022 میں ٹیسوری کو ایم کیو ایم پی نے بخوشی قبول کر کے انھیں ڈائریکٹ ڈپٹی کنوینر بنا دیا اور ایک ماہ بعد آپ مکمل پروٹوکول کے ساتھ گورنر ہاؤس میں داخل ہوئے۔ نگراں حکومت آئی چلی گئی۔ شہباز شریف کی ‘چنتخب’ حکومت پھر سے قائم ہو گئی۔ پیپلز پارٹی نے جان چھڑانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا لیا، مگر ٹیسوری کا بال بیکا نہیں ہوا۔ گذشتہ برس اگست میں مسلم لیگ ن نے بھی ایم کیو ایم سے کہا کہ کوئی دوسرا اردو بولنے والا گورنر ڈھونڈنے میں آخر کیا حرج ہے۔ لیکن سینیئر ڈپٹی کنوینر ڈاکٹر فاروق ستار نے کہا حکومت چھوڑ دیں گے، ٹیسوری کو نہیں چھوڑیں گے۔ اس انتہائی بیان پر فاروق ستار کے ساتھیوں نے انہیں بغور دیکھا بھی اور دل ہی دل میں بھی بہت کچھ کہا۔ لیکن سچ یہ ہے کہ کامران خان ٹیسوری پیپلز پارٹی اور ایم کی ایم پاکستان، دونوں کے سینوں پر مونگ ڈلتے ہوئے گورنر سندھ کی کرسی پر براجمان ہیں۔
