پاکستان میں امپورٹڈگاڑیاں سستی کیوں ہونےجارہی ہیں؟

وفاقی حکومت نے آئی ایم ایف کی شرائط کے تحت عوام کو سستی امپورٹڈ گاڑیوں کی فراہمی یقینی بنانے کیلئے کسٹمز ڈیوٹی کو 15 فیصد تک کم کر کے باقی تمام اضافی ریگولیٹری ڈیوٹیز ختم کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ نئے پالیسی فیصلے کے مطابق آئندہ چار سال میں بتدریج کسٹمز ڈیوٹی کو 15 فیصد تک لایا جائے گا جبکہ درآمدی گاڑیوں پر عائد تمام اضافی ریگولیٹری ٹیکس ختم کر دئیے جائیں گے۔حکومتی فیصلے کے بعد جہاں درآمدی گاڑیاں سستی ہونے سے عوام کو سہولت میسر آئے گی وہیں دوسری جانب نئی حکومتی پالیسی سے مقامی کارساز کمپنیوں کا دیوالیہ نکل جائے گا کیونکہ امپورٹڈ گاڑیاں سستی ہونے کے بعد پاکستانی گاڑیوں کی خریدوفروخت زیرو ہو جائے گی۔
مبصرین کے مطابق پاکستان میں گاڑیوں کی مقامی صنعت ایک بار پھر بحران کے دہانے پر کھڑی ہے۔ حکومت نے آئی ایم ایف کی ہدایت پر پانچ سال پرانی گاڑیوں کی درآمد پر اضافی 40 فیصد ڈیوٹیز عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ نئی حکومتی پالیسی کے تحت ستمبر 2025سے 5سال پرانی گاڑی منگوانے کی اجازت ہو گی جبکہ حادثے کا شکار، خراب انجن، دھواں چھوڑنے والی گاڑیاں منگوانے پر پابندی عائد رہے گی، دوسرے فیز میں 8 سے 10 سال پرانی گاڑی منگوانے کی اجازت دی جائے گی۔۔ اس وقت درآمدی گاڑیوں پر 50 سے 156 فیصد تک ڈیوٹیز عائد ہیں، لیکن نئی پالیسی کے تحت یہ شرح 96 سے 196 فیصد تک جا سکتی ہے۔ ذرائع کے مطابق اس وقت 850 سی سی کی درآمدی گاڑیوں پر مجموعی طور پر 50 فیصد، 1 ہزار سی سی کی درآمدی گاڑیوں پر 71 فیصد، 15 سو سی سی کی درآمدی گاڑیوں پر 76 فیصد، 18 سو سی سی کی درآمدی گاڑیوں پر 91 فیصد،25 سو سی سی یا اس سے بڑی گاڑیوں پر 156 فیصد ڈیوٹیز عائد ہیں،تاہم حکام کے مطابق آنے والے چار برسوں میں درآمدی گاڑیوں پر کسٹمز ڈیوٹی کو 15 فیصد تک کم کر کے باقی تمام اضافی ریگولیٹری ڈیوٹیز ختم کر دی جائیں گی۔ حکام کے مطابق یہ فیصلہ آئی ایم ایف کے قرض پروگرام کی عائد شرائط کے تحت کیا جا رہا ہے کیونکہ عالمی مالیاتی ادارے کے مطابق پاکستان میں مقامی گاڑیاں غیر پائیدار ہیں۔ اس لیے درآمدی گاڑیوں کو ایک متبادل کے طور پر کھولا جا رہا ہے تاکہ عوام کو بہتر آپشن مل سکیں۔
تاہم مقامی آٹو مینوفیکچررز اس حکومتی پالیسی کو سراسر تباہ کن قرار دے رہے ہیں۔ سی ای او ٹویوٹا موٹرز کے مطابق: "حکومتی پالیسیوں میں عدم تسلسل کی وجہ سے ہم 30 کروڑ ڈالر کی نئی سرمایہ کاری روکنے پر مجبور ہیں۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ اگر پانچ سال پرانی گاڑیاں درآمد ہوئیں تو مقامی انڈسٹری زمین بوس ہو جائے گی۔” دوسری طرف سی ای او پاک سوزوکی نے خبردار کیا ہے کہ اگر حکومت کی جانب مقامی کار مینوفیکچررز کے ساتھ زیادتوں کا سلسلہ جاری رہا تو 2030 تک وہ پاکستان میں گاڑیوں کی تیاری مکمل طور پر بند کر دیں گے۔ ان کے مطابق: "ہم جاپانی معیار کی گاڑیاں بناتے ہیں لیکن پاکستان کی غیر معیاری سڑکیں اور حکومتی ٹیکس پالیسی سب کچھ تباہ کر دیتی ہیں۔”
دوسری طرف اقتصادی ماہرین اور آٹو سیکٹر کے تجزیہ کار اس فیصلے کو دو دھاری تلوار قرار دے رہے ہیں۔ ماہر معیشت ڈاکٹر عاطف میاں کے مطابق: "یہ پالیسی وقتی طور پر تو عوام کو امپورٹڈ گاڑیوں کا ریلیف دے سکتی ہے، مگر طویل مدت میں یہ مقامی صنعت کو غیر مسابقتی بنا دے گی۔ جس کا آنے والے سالوں میں مکمل کباڑہ نکل جائے گا۔ تاہم آٹو ایکسپرٹ خرم شہزاد کے بقولپاکستانی کار ساز کمپنیاں دہائیوں سے عوام کو ناقص اور مہنگی گاڑیاں دے رہی ہیں۔ اگر درآمدی گاڑیاں کھلیں تو شاید یہی دباؤ ان کمپنیوں کو معیار بہتر کرنے پر مجبور کر دے۔”
مبصرین کے مطابق حکومتی فیصلے سے سب سے زیادہ عوام متاثر ہونگے کیونکہ آج پاکستان میں ایک چھوٹی 660 سی سی گاڑی بھی 30 سے 35 لاکھ روپے میں ملتی ہے۔ اس صورت میں اگر پانچ سال پرانی امپورٹڈ گاڑیاں بھی 100 سے 150 فیصد ٹیکس لگا کر ملیں گی تو فائدہ صرف حکومت کو ریونیو کی صورت میں ملے گا، عام صارف کو نہیں۔ اگر حکومت واقعی آٹو سیکٹر میں اصلاحات چاہتی ہے تو اسے ایک متوازن پالیسی اپنانا ہو گی۔ محض درآمدی گاڑیوں پر ٹیکس بڑھا کر یا مقامی کمپنیوں کو تحفظ دے کر مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ اصل حل اس وقت ممکن ہے جب شفاف قوانین، پالیسیوں میں تسلسل، اور سخت کوالٹی کنٹرول کے ذریعے عوام کو معیاری گاڑیاں فراہم کی جائیں۔ بصورت دیگر یہ نئی سکیم بھی صرف فائلوں اور اعلانات تک محدود رہ جائے گی اور پاکستان کا آٹو سیکٹر بدستور بحرانوں میں ڈوبا رہے گا۔
