سپریم کورٹ 26ویں آئینی ترمیم کیخلاف درخواست کیوں نہیں سن سکتی؟
سپریم کورٹ کے عمراندار ججز کہلانے والے جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر کے چیف جسٹس کو لکھے گئے خطوں میں کئے گئے مطالبات کو ماہرین نے قانون شکنی قرار دے دیا ہے اور سوال اٹھایا یے کہ عدالت عظمی کے سینیئر ترین ججز عمرانی محبت میں 26ویں آئینی ترمیم کو فل۔کورٹ کے سامنے فوری زیر سماعت لانے کے غیر آئینی مطالبات کیسے کر سکتے ہیں؟ کیونکہ قانونی ماہرین کے مطابق کسی بھی آئینی ترمیم کو کسی بھی عدالت میں نہ تو چیلنج کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی کسی عدالت کو ایسی کسی درخواست کی سماعت کا حق حاصل ہے۔
ناقدین کے مطابق جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر نے چیف جسٹس یحییٰ آفریدی سے مطالبہ کیا ہے کہ 26ویں ترمیم کا مقدمہ اسی ہفتے فل کورٹ بینچ میں لگایا جائے۔ اس مطالبے سے چند سنجیدہ سوالات نے جنم لیا ہے۔
کیا آئینی ترمیم کو کسی عدالت میں چیلنج کیا جا سکتا ہے؟
پہلا سوال یہ ہے کیا آئینی ترمیم کو کسی عدالت میں چیلنج کیا جا سکتا ہے اور کیا کوئی عدالت ایسی کسی درخواست کی سماعت کا اختیار رکھتی ہے؟اس کا جواب بہت واضح اور دوٹوک ہے کہ آئینی ترمیم کو کسی بھی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔
کیونکہ آئین کے باب 11 میں، آرٹیکل 239 کی ذیلی دفعہ پانچ میں لکھا ہے: ’دستور میں کسی بھی ترمیم پر، کسی بھی عدالت میں، کسی بھی بنیاد پر، چاہے وہ کسی ہی وجہ کیوں نہ ہو، کوئی اعتراض نہیں کیا جائے گا۔‘یہ ممانعت 26 ویں ترمیم کے ذریعے آئین میں شامل نہیں کی گئی، یہ وہاں بہت پہلے سے موجود ہے۔ آئین میں اس معاملے پر ایک غیر معمولی اہتمام کیا گیا ہے۔
چنانچہ ذیلی دفعہ پانچ میں لکھا ہے: ’کسی شک کے ازالے کے لیے، بذریعہ ہذا، قرار دیا جاتا ہے کہ دستور کے احکام میں سے کسی میں ترمیم کرنے کے مجلس شوریٰ یعنی پارلیمان کے اختیار پر کسی بھی قسم کی کوئی پابندی نہیں ہے۔‘کیا آئین میں اس وضاحت کے بعد بھی کہیں کوئی ابہام موجود ہونا چاہیے؟ جس کی بنا پر دو سینیئر ترین ججز نے چیف جسٹس کو خط لکھ مارا
مبصرین کے مطابق اس حوالے سے ایک رائے یہ ہے کہ اگر پارلیمان آئین کے بنیادی ڈھانچے کے خلاف آئین سازی کرے تو سپریم کورٹ اسے کالعدم قرار دے سکتی ہے۔ تاہم یہاں پر بھی سوال یہ پیداہوتا ہے کہ آئین میں کہاں لکھا ہے کہ یہ اس کا بنیادی ڈھانچہ ہے؟ کیا آئین نے کہیں وضاحت کی ہے کہ فلاں فلاں چیز کی نوعیت حتمی ہے؟
ماہرین کے مطابق بنگلہ دیش کے آئین میں آرٹیکل سات بی میں بتایا گیا ہے کہ یہ چیزیں آئین کا بنیادی ڈھانچہ تصور ہوں گی، ایسی کوئی چیز کیا پاکستان کے آئین میں لکھی گئی ہے؟
کیا عدالت تشریح کیلئے کوئی چیز آئین میں درج کر سکتی ہے؟
ایک چیز جو پارلیمان میں بیٹھے عوام کے نمائندوں نے آئین میں نہیں لکھی، کیا عدالت تشریح کے نام پر آئین میں وہ چیز ڈال سکتی ہے؟ یا اگر پارلیمان نے کچھ لکھا ہے تو کیا عدالت اسے آئین سے نکال سکتی ہے؟ کیا عدالت بھی جزوی طور پر آئین ساز ہے؟ قانونی ماہرین کے مطابق بنیادی ڈھانچہ نامی کوئی چیز اگر ہے تو کہاں سے آئی؟ عوام کے نمائندوں نے دی۔ اب عوام ہی کے نمائندے اگر آئین میں کوئی نئی بات شامل کرنا چاہیں تو ان پر کس اصول کے تحت پابندی لگائی جا سکتی ہے؟ہو سکتا ہے 1973 میں عوام نے اپنے نمائندوں کے ذریعے ایک چیز طے کی ہو، اب کیا عوام کا یہ حق ساقط ہو جاتا ہے کہ وہ اس چیز کو بدل نہیں سکتے؟
کیا آئین میں کہیں لکھا ہے کہ پارلیمان کی آئین سازی کا حق عدلیہ کی اجازت سے مشروط ہو گا؟ کیا آئین میں ’آئین کے محافظ‘ کا کوئی ایسا تصور پایا جاتا ہے؟
ماہرین کے مطابق قانون سازی کی حد تک تو یہ اہتمام موجود ہے کہ اگر وہ آئین سے متصادم ہو تو کالعدم قرار دیا جائے گا لیکن ایسی کوئی بات آئین سازی کے بارے میں نہیں کی گئی بلکہ واضح طور پر لکھ دیا گیا کہ پارلیمان کے دستور میں ترمیم کے اختیار پر کسی بھی قسم کی کوئی پابندی نہیں ہے۔
عدالتی فیصلوں کو بطور مثال پیش کیاجاتا ہے،مبصرین
مبصرین کے مطابق ہمارے ہاں اس معاملے میں کچھ عدالتی فیصلوں کو بطور مثال پیش کیا جاتا ہے کہ فلاں فلاں فیصلے میں قرار دیا گیا ہے کہ سپریم کورٹ آئین سازی کا جائزہ لے سکتی ہے اور آئینی ترمیم کو کالعدم قرار دے سکتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا عدالتی فیصلے کے ذریعے آئین کی کسی واضح شق کو کالعدم قرار دیا جا سکتا ہے؟ اگر ایسا ہوا ہے تو کیا وہ عدالتی نظیر آئین کی نظر میں معتبر ہے؟
یعنی کیا آئین کی کسی شق کو ماورائے پارلیمان منسوخ یا معطل کیا جا سکتا ہے؟ یہ سوال اس لیے اہم ہے کہ خود پارلیمان کے اندر سے ایسے شکوے سامنے آتے رہے کہ آئین کو ماورائے پارلیمان ’ری رائٹ‘ کیا جاتا ہے۔تو آئین کو اگر ماورائے پارلیمان ازسرے نو لکھنا قابل اعتراض ہے تو آئین کی کسی شق کو ماورائے پارلیمان معطل یا منسوخ کرنا کیسا عمل قرار پائے گا؟
مبصرین کے مطابق عدالتی نظیر کا معاملہ بذات خود بہت دلچسپ ہے۔زمینی حقیقتوں کے بدلنے سے عدالتی نظیر بھی بدلتی رہتی ہے۔ عدالتی نظیر تو پر یہ بھی ہے کہ سپریم کورٹ نے فرد واحد کو آئین میں ترمیم کا اختیار دیے رکھا۔ کیا وہ عدالتی نظیر بھی قابل تقلید ہے؟
ناقدین کے مطابق یہاں ایک سوال یہ بھی ہے کیا کسی بھی پٹیشن کو سننے کےلیے ججوں کو اصرار کرنا چاہیے، یہ اصرار درخواست گزار کریں تو سمجھ میں آنے والی بات ہے۔ درخواست گزار ارجنٹ ہیئرنگ یعنی جلد سماعت کی درخواست بھی دے سکتے ہیں۔ وہ کیوں نہیں دے دیتے؟ ان کے حصے کا بوجھ کوئی اور کیوں اٹھا رہا ہے؟سوالات کچھ اور بھی ہیں لیکن بعض اوقات ادب کے تقاضوں کے تحت کچھ سخن ہائے گفتہ کا ناگفتہ رہ جانا ہی مناسب ہوتا ہے۔