سہولت کاری ختم ہونے کے بعد عمران کے لیے جیل مشکل کیوں ہو گئی ؟
اڈیالہ جیل میں سہولتکاری بند ہونے کے بعد بانی پی ٹی آئی کی چیخیں نکلنا شروع ہو گئی ہیں ایک طرف عمران خان نے ایک بار پھر جیل میں سہولیات کے فقدان کا واویلا مچانا شروع کر دیا ہے وہیں دوبارہ خود کو پہنچنے والے کسی نقصان کا الزام بھی عسکری قیادت پر عائد کر دیا ہے۔ تاہم دوسری جانب عمران خان کی سہولتکاری کے فیضی نیٹ ورک کے پکڑے جانے کے بعد اڈیالہ جیل میں سینئر حکام کے تقرر و تبادلوں کا سلسلہ جاری ہے۔ جس کے بعد نہ صرف عمران خان کے بیرک پر تعینات جیل کے عملے کو بانی پی ٹی آئی سے بات چیت کرنے سے منع کر دیا گیا ہے بلکہ عمران خان کے خلاف ضابطہ مطالبات کو ماننے سے بھی روک دیا گیا ہے۔
تاہم یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اڈیالہ جیل کے سینئر حکام کے تبادلے اور تعیناتی سے جیل میں عمران خان کی سہولت کاری بند ہو جائے گی؟ کیونکہ جب سے عمران خان اڈیالہ جیل میں قید ہیں، انھیں نہ صرف وہاں عیاشی کی زندگی میسر ہے بلکہ جیل حکام کی سہولتکاری کی بدولت ہی وہ غیر ملکی مطبوعات میں شائع ہونے والے مضامین کے ذریعے معلومات باہر کی دنیا تک پہنچانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ حیران کن بات یہ ہے کہ عمران خان صرف مضامین شائع کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے بلکہ وہ جیل کے باہر کئی لوگوں سے مبینہ طور پر جیل کے عملے کی ملی بھگت سے رابطے میں بھی تھے۔ سابق ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ جیل محمد اکرم کو انہی الزامات کے تحت گرفتار کیا گیا ہے اور عمران خان پر مہربانی کرنے والے جیل کے کئی اہلکاروں کو صوبے کی دیگر جیلوں میں تبادلہ کیا گیا ہے۔
کیا عمران PTI علیمہ خان کے حوالے کرنے پر راضی ہو جائیں گے ؟
تاہم مبصرین کے مطابق یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ ایک گرفتاری اور محض کچھ تبادلوں اور تعیناتیوں کے علاوہ اس سارے عمل میں ملوث افراد کیخلاف کیا کارروائی کی گئی کیونکہ یہ کسی ایک شخص کا کام نہیں ہو سکتا۔ جس وقت پنجاب کے جیل حکام اور قانون نافذ کرنے والے ادارے اس معاملے کی تحقیقات کر رہے ہیں اس وقت یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستان کے جیل کے قوانین کسی قیدی کو کسی بھی اخبار کو خط یا مضمون لکھنے کی اجازت دیتے ہیں؟ کیا جیل میں قید شخص سیاست میں سرگرم ہو سکتا ہے؟ ناقدین کے مطابق اگر ان سوالات کا جواب نہیں میں ہے تو ریاستی اداروں کو اس قانونی خلاف ورزی کے ذمہ داران کو نہ صرف بے نقاب کرنا چاہیے بلکہ ایسے عناصر کو قرار واقعی سزا بھی دینی چاہیے تاکہ آئندہ کسی کو ایسی خلاف ورزی کی ہمت نہ ہو۔
دوسری جانب پی ٹی آئی حلقوں کے مطابق اڈیالہ جیل میں حکام کی گرفتاریوں اور نئی تعیناتیوں کے بعد سابق وزیراعظم عمران خان پر اڈیالہ جیل میں سختیاں مزید بڑھا دی گئی ہیں۔ جیل کے عملے کو عمران خان کے سیل کے قریب جانے سے منع کردیا گیا ہے۔ عمران خان اب مکمل طور پر قید تنہائی میں ہیں۔ اگر عمران خان کو کسی چیز کی ضرورت ہوتی ہے تو وہ آواز لگا کر منگوا لیتے ہیں لیکن عملے کو عمران خان سے بات چیت کرنے سے سختی سے منع کیا گیا ہے۔پاکستان تحریک انصاف کے ذرائع نے یہ بھی دعوی کی ہے کہ عمران خان کو اب متعدد ضروریات کی چیزیں بھی مہیا نہیں کی جا رہی ہیں۔ مثلاً انہیں کتابیں، انگریزی اخبار ڈان وغیرہ اب پڑھنے کو نہیں دیا جارہا ہے۔پی ٹی آئی ذرائع کے مطابق سابق وزیراعظم عمران خان پر پہلے بھی سختیاں تھیں تاہم انہوں نے اس حوالے سے بات کرنے سے منع کیا ہوا تھا لیکن اب سختیاں مزید بڑھا دی گئی ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ عمران خان کو نہانے کے لیے ریت ملا پانی دیا جاتا ہے۔ بالٹی بھر کر رکھ دی جاتی ہے۔ جب ریت بیٹھ جاتی ہے تو عمران خان وہ پانی نہانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ذرائع نے بتایا کہ عمران خان کے سیل میں مین ہول کا ڈھکن بھی اب کھلا چھوڑا ہوا ہے جس کی وجہ سے سیل میں بدبو پھیل جاتی ہے جبکہ کیڑے مکوڑے بھی سیل میں آتے ہیں۔
پی ٹی آئی ذرائع کے مطابق عمران خان کی ملاقاتیوں کی تعداد بھی 6 سے کم کر کے اب 2 کردی گئی ہے۔ وکلا کو بھی ملاقات سے روکا جاتا ہے۔ عدالت کے احکامات کے بعد ہی وکلا کو اندر جانے کی اجازت دی جاتی ہے جبکہ سیاسی ملاقاتوں میں سیاست پر گفتگو کرنے سے روکا جاتا ہے۔
سابق وزیراعظم عمران خان نے بھی جیل میں سہولتکاری بند ہونے کے بعد چیخنا چلانا شروع کر دیا ہے۔ بانی پی ٹی آئی کے مطابق اڈیالہ جیل میں مزید افسران کے تبادلے کر دیے گئے ہیں جس کے بعد اب سختیاں بھی بڑھ گئی ہیں۔انہوں نے الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ اگر انہیں کچھ ہوا تو اس کے ذمہ دار آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی ہوں گے۔