سپریم کورٹ کے 8 ججز نے عمران کی خاطر آئین سازی کیوں کر ڈالی ؟
معروف لکھاری اور تجزیہ کار سینٹر عرفان صدیقی نے سپریم کورٹ کے 8 رکنی بینچ کا مخصوص نشستیں تحریک انصاف کو دینے کے فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے بلاشبہ انتظامیہ کے پاس عدالتی فیصلوں پر عملدرآمد کے سوا کوئی چوائس نہیں ہوتی لیکن کیا عدلیہ کے پاس یہ ’’چوائس‘‘ ہوتی ہے کہ وہ آئین اور قانون کی دوٹوک اور واضح شقوں کو نظر انداز کرتے ہوئے نظریۂِ ضرورت اپناتے ہوئے ’مکمل انصاف‘ کے نام پر آئین سازی اور قانون سازی شروع کر دے؟
اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں عرفان صدیقی کہتے ہیں کہ سپریم کورٹ کے 8 ججز نے تحریک انصاف کو انصاف دلانے کی خاطر جسٹس منیر والا نظریہ ضرورت اپنایا۔ انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ’’نظریہ ضرورت کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ بات جو دراصل غیرقانونی ہو، اُسے قانونی بنادیا جائے۔‘‘ انکا کہنا یے کہ ناجائز کو جائز قرار دینے اور ہر آئینی شق کا فولادی قفل کھولنے والی ’’نظریۂِ ضرورت‘‘ نامی طلسمی کنجی کو پُرکھوں کی مقدس میراث جان کر آج کے منصف بھی استعمال کر رہے ہیں۔ جب آئین شکنی کی بنیاد رکھنے والے جنرل ایوب خان، اور اسکے بعد یحییٰ خان، ضیاء الحق اور پرویز مشرف نے آئین پر یلغار کی، اعر جمہوری حکومتوں کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ جمایا تو سپریم کورٹ کے جج صاحبان نے زنبیل سے یہی طلسمی کنجی نکالی، اور آمروں کے ناجائز اقدام کو نظریہ ضرورت کے تحت جائز قرار دیا، ججز نے اپنے آئینی حلف سے انحراف کرتے ہوئے آئین شکنوں سے عہدِ وفا باندھا اور اپنی بصیرت کے مطابق ’’آئینی توازن‘‘ درست کرکے، اپنی اپنی مسندِ انصاف پرجا بیٹھے۔
کیا جسٹس منصور علی شاہ واقعی اگلے چیف جسٹس بن سکیں گے ؟
عرفان صدیقی کہتے ہیں کہ یوں رفتہ رفتہ ہماری عدلیہ ’’آئینی توازن‘‘ قائم رکھنے کے فن میں اتنی طاق ہوگئی کہ اُسے ’’قفل کشائی‘‘ کے لئے کسی چابی کی ضرورت ہی نہ رہی۔ معاملہ ’’قفل شکنی‘‘ تک جا پہنچا۔ بات اُس سے بھی آگے بڑھی اور ’’نظریۂِ ضرورت‘‘ کے تحت ’’نقب زنی‘‘ بھی روا ٹھہری۔ وہ کہتے ہیں کہ ایسی ہی ایک نقب زنی 12 جولائی 2024 کو سپریم کورٹ کے 8 ججز نے مخصوص نشستوں کے کیس میں فیصلہ سناتے ہوئے کی۔
آئینِ پاکستان کے تحت اعلیٰ عدالتوں کے جج صاحبان منصب سنبھالتے وقت جو حلف اٹھاتے ہیں، اُسکا ایک مرکزی جملہ ہے ’’میں ہر حالت میں، ہر قسم کے لوگوں کیساتھ بلا خوف و رعایت اور بلارغبت وعناد، قانون کے مطابق انصاف کرونگا۔‘‘ اِس جملے میں ’’خوف، رعایت، رغبت اور عناد‘‘ کلیدی الفاظ ہیں۔ تاریخ بتاتی ہے کہ جب بھی مارشل لا نافذ ہوا، اُس وقت کے منصف، خوف کا شکار ہوکر، آمروں سے جاملے۔ اُنہیں ہر وہ ’’رعایت‘‘ دی جو انہوں نے مانگی یا نہ مانگی۔ مارشل لائوں کی حد تک عدلیہ کی مجبوری، قابلِ فہم سہی لیکن افسوس ناک امر یہ ہے کہ جمہوری ادوار میں بھی کسی سے "رغبت” اور کسی سے ’’عناد‘‘ کا تعفّن اٹھ رہا ہے۔ ہماری عدالتی تاریخ کے تمام اہم فیصلے کسی کے خوف تلے کئے گئے یا کسی کو رعایت دینے کیلئے، کسی رغبت ومحبت میں کئے گئے یا کسی کے بغض وعناد میں۔یہ تمام فیصلے بے بس ولاچار انتظامیہ نے گردن جھکا کر تسلیم کرلئے۔ ’’آئینی توازن‘‘ کو غیرمتوازن کرنے میں انتظامیہ اور مقننہ کا کردار نہ ہونے کے برابر ہے۔ ریاست کے یہ دونوں ستون، سات دہائیوں سے چاند ماری کے ٹیلے بنے ہوئے ہیں۔ اُن پر جب بھی کسی نے حملہ کیا، عدلیہ اُن کے دفاع کے لئے نہ اٹھی بلکہ حملہ آوروں کا دَست وبازو بن گئی۔
عرفان صدیقی کہتے ہیں کہ اب ’’نظریۂِ ضرورت‘‘ زمانۂِ قدیم کا متروک ہتھیار بن چکا ہے۔ یہ کام آئینی شقوں یا قوانین کی تشریح وتعبیر کے نام پر کیاجاتا ہے۔ بلاشبہ عدلیہ کو یہ اتھارٹی آئین نے دی ہے لیکن کیا یہ اتھارٹی آئین کی باقی تمام شقوں پر حاوی ہے؟ کیا یہ اتھارٹی جج صاحبان کے حلف پر بھی مقدم ہے؟ اور کیا یہ اتھارٹی تمام آئینی و قانونی حدود سے ماوریٰ ایسی لامحدود ’صوابدید‘ ہے جس کا انحصار صرف جج صاحبان کی اپنی مرضی ومنشا پر ہے؟ ان کا کہنا ہے کہ 12 جولائی کے متنازعہ فیصلے میں آئین کے ایک اور آرٹیکل 175 سے ’’نظریۂِ مکمل انصاف‘‘ نچوڑا گیا۔ اس تصوّر کو عملی طورپر یہ معنی دئیے گئے کہ اگر جج صاحبان کی نظر میں ’’مکمل انصاف‘‘ کیلئے آئین وقانون کی واضح شقوں سے انحراف بھی کرنا پڑے تو کوئی مضائقہ نہیں۔ آنے والے عہد کے منصف بھی ’’کامل انصاف‘‘ کے اسی نظریے پر ایمان لاتے ہوئے، اپنے حلف، آئین اور قانون کے تقاضوں کو لایعنی خیال کرنے لگے تو ریاست کا کیا بنے گا؟ بلاشبہ انتظامیہ کے پاس عدالتی فیصلوں پر عملدرآمد کے سوا کوئی ’’چوائس‘‘ نہیں لیکن کیا عدلیہ کے پاس یہ ’’چوائس‘‘ ہے کہ وہ آئین وقانون کی دوٹوک اور واضح شقوں کے ہوتے ہوئے تشریح وتعبیر، نظریۂِ ضرورت یا ’مکمل انصاف‘ کے نام پر، مقننہ کا کردار اپنالے اور آئین نویسی اور قانون سازی کا وظیفہ سنبھال لے؟ من پسند رنگ کے شیشوں والی عینک اتار کے دیکھا جائے تو کسی ابہام کے بغیر ہماری تاریخ دو حقائق کی نشاندہی کرتی ہے۔ پہلی حقیقت یہ کہ ’’آئینی توازن‘‘ درہم برہم کرنے میں انتظامیہ اور مقننہ کا کچھ کیا دھرا ہے بھی تو برائے نام۔ دوسری حقیقت یہ کہ ’’آئینی توازن‘‘ اُس وقت تک قائم نہیں ہوگا جب تک جج صاحبان کے حلف کے مطابق ’’خوف، رعایت، رغبت اور عناد‘‘ سے ہر حال میں دور رہنے کا زبانی اقرار، پختہ ایمان بن کر دلوں میں نہیں اترتا اور عمل میں نہیں ڈھلتا۔