پاک فوج حکمت عملی بدل کر انٹیلیجنس آپریشنز کیوں کرنے لگی؟

 

سال 2025 کے دوران جہاں پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں نمایاں اضافہ ہوا وہیں پاکستانی سیکیورٹی فورسز نے بھی اپنی حکمت عملی تبدیل کرتے ہوئے تحریک طالبان اور بلوچ لبریشن آرمی کے خلاف انٹیلی جینس بیسڈ آپریشنز کرتے ہوئے دونوں کے عسکری نیٹ ورکس کو بڑے پیمانے پر نقصان پہنچایا۔ اس کے علاوہ پاکستانی فوج نے اپنی مشرقی اور مغربی سرحد پر کامیابی سے دو بڑی جنگیں لڑتے ہوئے انڈیا اور افغانستان کو شکست فاش سے دوچار کیا۔

اس سال کے آغاز سے لے کر اب تک پاکستان میں دہشتگردی کے سینکڑوں واقعات ہوئے جن میں سب سے افسوسناک واقعہ 11 مارچ 2025 کو بلوچستان میں جعفر ایکسپریس پر ہونے والا حملہ تھا، بلوچ لبریشن آرمی کی جانب سے کیے جانے والے اس حملے میں 30 سے زائد فوجی جوانوں سمیت 64 افراد شہید ہوئے۔ اس کے بعد ستمبر 2025 میں دہشتگردی کے 69 واقعات رپورٹ ہوئے جن میں 135 افراد جاں بحق اور 173 زخمی ہوئے۔ اگرچہ یہ تعداد اگست 2025 کے مقابلے میں 52 فیصد کمی ظاہر کرتی ہے، لیکن حملوں کی شدت اور ہلاکت خیزی برقرار رہی، خصوصاً خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں رونما ہونے والے پر تشدد واقعات میں سے 96 فیصد دہشت گرد حملے تھے۔

سال 2025 میں بلوچستان میں 21 دہشت گرد حملے ہوئے جن میں 4 خودکش دھماکے شامل تھے۔ ان حملوں کے نتیجے میں 79 افراد جاں بحق اور 122 زخمی ہوئے۔ خیبرپختونخوا میں 25 حملے ہوئے جن میں 33 افراد مارے گئے، جن میں زیادہ تر سیکیورٹی اہلکار شامل تھے۔ سابقہ قبائلی اضلاع میں 20 حملوں میں 21 اموات ہوئیں۔ سندھ میں تین معمولی نوعیت کے واقعات رپورٹ ہوئے جبکہ پنجاب، گلگت بلتستان، اسلام آباد اور آزاد کشمیر میں کوئی واقعہ پیش نہیں آیا۔

سال کی تیسری سہ ماہی یعنی جولائی سے ستمبر 2025 کے دوران مجموعی طور پر 294 دہشتگرد حملے ریکارڈ کیے گئے جن میں 430 افراد جاں بحق اور 554 زخمی ہوئے۔ یہ پچھلی سہ ماہی یعنی اپریل سے جون 2025 کے مقابلے میں حملوں میں 20 فیصد اور اموات میں 45 فیصد اضافہ ظاہر کرتا ہے۔ یہ اعداد و شمار نشاندہی کرتے ہیں کہ بلوچستان میں بدلتی ہوئی حکمت عملی اور خیبر پختونخوا میں شدت پسندوں کی سرگرمیاں اب بھی ریاست کے لیے سنگین خطرہ بنی ہوئی ہیں۔ بظاہر پاکستانی سیکیورٹی فورسز نے ستمبر میں انسداد دہشتگردی کی کارروائیاں تیز کیں۔ ملک بھر میں 47 بڑے فوجی آپریشنز کیے گئے جن میں 197 دہشتگرد ہلاک، 15 گرفتار اور 58 زخمی ہوئے۔ ان کارروائیوں میں 23 سیکیورٹی اہلکار اور 24 شہری بھی جان کی بازی ہار گئے۔

سب سے زیادہ دہشتگرد مخالف آپریشنز خیبرپختونخوا میں کیے گئے جہاں 22 کارروائیوں کے دوران 88 دہشتگرد اور 11 اہلکار مارے گئے۔ فاٹا میں 18 فوجی آپریشنز کیے گئے جن میں 83 دہشتگردوں کو ہلاک کیا گیا، تاہم ان کارروائیوں میں 12 اہلکار اور 24 شہری بھی شہید ہوئے۔ بلوچستان میں 7 آپریشنز کیے گئے جن میں 26 دہشتگرد مارے گئے اور 10 کو گرفتار کیا گیا۔ باجوڑ میں "آپریشن سربکف” کے ذریعے 11 دیہات دہشتگردوں سے مکمل طور پر کلیئر کیے گئے اور وہاں مقامی آبادی کی واپسی ممکن ہوئی۔

دفاعی تجزیہ نگار برگیڈیئر (ریٹائرڈ) آصف ہارون کے مطابق پاکستان آرمی کے انسداد دہشت گردی آپریشنز حد سے زیادہ کامیاب رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دہشتگردی میں ہونے والی شہادتوں کے تناظر میں دیکھا جائے تو سال 2025 مہلک ترین سال تھا، لیکن اِس سے پہلے ایسا کبھی نہیں ہوا کہ ہم نے ایک دن میں 70، 80 یا 100 دہشتگرد مارے ہوں۔ برگیڈیئر آصف ہارون کا کہنا تھا کہ پاکستان اس خطے میں ہے جہاں دنیا بھر کی افواج ناکام ہو گئیں، جہاں نیٹو ناکام ہوا، جہاں اتحادی افواج بھی ناکام رہیں، لیکن دنیا بھر کے ممالک کو یقین ہے کہ پاکستان یہاں کامیاب ہو سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستانی فوج 2001 سے دہشتگردی کے خلاف جنگ لڑ رہی ہے، اب جبکہ دہشت گردوں نے جدید اسلحہ اور ٹیکنالوجی حاصل کر لی ہے تو پاک فوج نے بھی اپنی آپریشنل صلاحیتوں کو بڑھاتے ہوئے نائٹ ویژن، سیٹلائٹ کمیونیکیشن اور امیجری کی سہولت کے ساتھ ساتھ ڈرونز سے خود کو اپ گریڈ کر لیا ہے۔ تاہم اب پاک فوج 2009 اور 2014 جیسے بڑے ملٹری آپریشنز نہیں کر رہی کیونکہ اُس لیول کے آپریشنز میں شہریوں کی جانیں ضائع ہونے کا خدشہ بھی ہوتا ہے۔ لہذا اب زیادہ تر انٹیلی جنس بیسڈ ملٹری آپریشنز کیے جا رہے ہیں۔

سال 2024–25 میں پاکستان میں سب سے زیادہ دہشت گرد حملے تحریک طالبان، بلوچستان لبریشن آرمی جماعت الاحرار، حافظ گل بہادر گروپ اور مجید برگیڈ نے کیے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان کو ایک طرف مشرقی سرحد پر بھارت نے جنگ میں الجھایا جب کہ دوسری طرف مغربی سرحد پر افغانستان نے جنگ کا پنگا لیا۔ لیکن مئی اور اکتوبر میں ہونے والی دونوں جنگوں میں بھارت اور افغانستان دونوں کو ناکوں چنے چبوا دیے گئے۔ پاکستان نے ایک طرف مئی میں صرف چار دن کے اندر بھارت کا غرور خاک میں ملا دیا جبکہ دوسری طرف اکتوبر میں صرف تین روز کے اندر افغانستان کی غلط فہمی بھی دور کر دی۔

بین الاقوامی اداروں کے ساتھ کام کرنے والے اور افغان امور پر گہری نگاہ رکھنے والے ممتاز صحافی طاہر خان کا کہنا ہے کہ سال 2008 سے لے کر 2014 تک باجوڑ، سوات، اور وزیرستان میں ہونے والے فوجی آپریشنز نے دہشتگرد گروہوں کی عملی صلاحیت ختم کر دی تھی۔ تاہم سال 2021 میں عمران خان کی حکومت کی جانب سے تحریک طالبان پاکستان کے جنگجوؤں کو افغانستان سے واپس لا کر خیبر پختوں خواہ میں بسانے کے بعد سے صورتحال آؤٹ آف کنٹرول ہو گئی۔ ماضی میں دشمن معلوم ہوتا تھا، اب وہ نامعلوم ہے اور آبادی کے اندر رہتا ہے۔ ایسے میں جب آپ اس پر حملہ کرتے ہیں تو ساتھ میں عام لوگ بھی مارے جاتے ہیں، جس سے سارے نظام کو خطرہ لاحق ہو جاتا ہے۔

Back to top button