عمران جنگوں میں پاکستان کا ساتھ دینے سے کیوں کتراتے ہیں ؟

 

 

 

پاک فوج کی بھارت کے ساتھ جنگ ہو یا افغانستان کے ساتھ سرحدی جھڑپیں ہوں، عمران خان عموماً ان نازک مواقع پر قومی موقف اختیار کرنے کی بجائے پراسرار خاموشی اختیار کر لیتے ہیں جبکہ پی ٹی آئی رہنما ایسے بیانات داغنا شروع ہو جاتے ہیں جن سے دشمن کا ساتھ دینے کا تاثر ابھرتا ہے۔ بھارت کے ساتھ جنگ کے وقت بھی ان کی یہی پالیسی تھی اور افغانستان سے سرحدی کشیدگی کے دوران بھی وہ اسی پالیسی پر عمل کرتے نظر آتے ہیں۔

 

سینیئر صحافی اور لکھاری عامر خاکوانی اپنے خصوصی تجزیہ میں کہتے ہیں کہ جنگ کے وقت جب ملک کی سلامتی خطرے میں ہوتی ہے تو افواج کے ساتھ کھل کر یکجہتی کا اظہار ہماری سیاسی قیادت کی اخلاقی ذمہ داری ہوتی ہے۔ لیکن تحریکِ انصاف کے سربراہ عمران خان کی طرزِ سیاست میں یہ عنصر شاذ و نادر ہی نظر آتا ہے۔ بھارت کے ساتھ جنگ ہو یا افغانستان کے ساتھ سرحدی جھڑپیں، وہ پاکستانی عوام اور افواج کا حوصلہ بڑھانے کی بجائے پراسرار خاموشی اختیار کر لیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مئی کی جنگ کے دوران جب انڈیا کے میزائل پاکستانی شہروں پر گر رہے تھے تب عمران خان کی جانب سے افواجِ پاکستان کے ساتھ اظہار یکجہتی نہ صرف قومی سطح پر انکی اور انکی جماعت کی ساکھ بحال کرتا بلکہ فوجی قیادت میں بھی ان کے لیے نرم گوشہ پیدا ہو سکتا تھا۔ لیکن انہوں نے خاموش رہنا مناسب سمجھا جب کہ ان کے سوشل میڈیا بریگیڈ نے میڈیا وار میں دشمن کا ساتھ دیا اور افواج پاکستان کو ملعون و مطعون کرنا بہتر جانا۔

 

عامر خاکوانی کے مطابق تحریکِ انصاف کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ قومی سلامتی کے معاملات پر اس کا ردعمل ہمیشہ نفرت اور کنفیوژن کا شکار رہتا ہے، پاکستان کے لیے مشکل گھڑی میں پی ٹی آئی کی جانب سے ہمیشہ تاخیر کے ساتھ ایسا بیانیہ سامنے آتا ہے جو عوام کے قومی جذبات سے مطابقت نہیں رکھتا۔ عمران کی سیاست چونکہ احتساب اور ادارہ جاتی محاسبے کے گرد گھومتی ہے، اس لیے ان کے اور عسکری قیادت کے درمیان عدم اعتماد ایک مستقل خلیج کی صورت اختیار کر چکا ہے۔ نتیجتاً پارٹی کے سیاسی فیصلے اکثر قومی مفاد سے زیادہ شخصی مفاد کے تابع دکھائی دیتے ہیں۔

 

دوسری طرف، بطور اپوزیشن بھی پی ٹی آئی کا رویہ متوازن نہیں رہا۔ قومی بحران کے وقت حکومت پر تنقید اپنی جگہ، مگر ایسے لمحات میں افواج کے خلاف بیانات دینا نہ صرف سیاسی نادانی ہے بلکہ عوامی سطح پر دفاعی کمزوری کا تاثر پیدا کرتا ہے۔ سوشل میڈیا پر پی ٹی آئی کے ٹرول بریگیڈ کا جارحانہ رویہ صورتِ حال کو مزید بگاڑ دیتا ہے۔ خاکوانی کا خیال ہے کہ پاک بھارت جنگ کے دوران پاکستان کے ساتھ کھڑا ہونے کا موقع مس کرنے کے بعد عمران خان کو افغانستان سے ہونے والی جھڑپوں کے دوران ایک مرتبہ پھر پاکستان کے ساتھ کھڑے ہونے کا موقع ملا لیکن وہ ایک مرتبہ پھر طالبان کے ساتھ کھڑے نظر آتے ہیں۔

 

سینیئر صحافی کے مطابق افغان سکیورٹی فورسز کی جانب سے پاکستانی بارڈر پوسٹس پر حالیہ حملوں کے بعد جب پاک فضائیہ نے بھرپور جوابی کاروائی کی تو دیگر سیاسی جماعتوں کی طرح تحریک انصاف کو بھی اس کی پذیرائی کرنی چاہیے تھی۔ اس کے پاس ایک نیا موقع تھا کہ وہ اپنا قومی مؤقف واضح کرے لیکن بظاہر یہ موقع بھی گنوایا جا رہا ہے۔ عمران خیبر پختون خواہ میں سیاسی فائدہ حاصل کرنے کے لیے نہ صرف پاکستان کی افغان پالیسی کو غلط قرار دے رہے ہیں بلکہ ان کے نامزد کردہ نے وزیراعلی سہیل آفریدی نے صوبائی اسمبلی سے اپنے پہلے خطاب میں یہ اعلان کر دیا ہے کہ وہ تحریک طالبان کے خلاف فوجی آپریشن نہیں ہونے دیں گے۔ ایسے میں واضح ہے کہ عمران خان پاکستان کے ساتھ کھڑے ہیں یا اس کے خلاف برسر پیکار قوتوں کا ساتھ دے رہے ہیں۔ مختصر یہ کہ عمران خان کی طرز سیاست میں قومی مفاد کی بجائے ذاتی مفادات کو فوقیت دی جاتی ہے اور یہی رویہ ان کے سیاسی مستقبل کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے۔

 

Back to top button