کیا عمران خیبر پختون خواہ میں فوجی آپریشن روک پائیں گے ؟

معلوم ہوا ہے کہ عمران خان نے خیبر پختونخوا کے نو منتخب وزیر اعلیٰ سہیل آفریدی کو جو سب سے اہم ذمہ داری سونپی ہے، وہ صوبے میں تحریک طالبان پاکستان کے خلاف ممکنہ فوجی آپریشن کو روکنے کی کوشش ہے۔ ذرائع کے مطابق، سابق وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور کو وزارتِ اعلیٰ سے ہٹانے کی اصل وجہ بھی یہی بنی کہ وہ عمران خان کی اس پالیسی سے مکمل اتفاق نہیں کر رہے تھے اور ٹی ٹی پی کے خلاف فوجی اقدامات کی راہ میں رکاوٹ نہیں بننا چاہتے تھے۔ یہی اختلاف رفتہ رفتہ سیاسی بد اعتمادی میں بدل گیا، جس کے بعد عمران خان نے گنڈاپور کی چھٹی کروا کر سہیل آفریدی کو لانے کا فیصلہ کر لیا کیونکہ سہیل آفریدی نہ صرف عمران خان کے بیانیے سے ہم آہنگ ہیں بلکہ انھیں عمران خان کی آپریشن مخالف پالیسی کو عملی طور پر نافذ کرنے کا حامی بھی سمجھا جاتا ہے۔ تاہم دفاعی تجزیہ کاروں کے مطابق خیبرپختونخوا میں جاری فوجی آپریشن کو روکنا سہیل آفریدی کے بس کی بات نہیں اس حوالے سے انھوں نے کوئی روڑے اٹکانے کی کوشش کی تو وہ تخت سے تختے پر بھی پہنچ سکتے ہیں۔

پی ٹی آئی ذرائع کے مطابق، علیمہ خان پر الزامات کے علاوہ عمران خان اور علی امین گنڈاپور کے درمیان اختلاف کی بنیادی وجہ ٹی ٹی پی کے خلاف ممکنہ فوجی آپریشن تھی۔ عمران خان چاہتے تھے کہ صوبائی حکومت ایسے کسی بھی آپریشن کے لیے نہ صرف مزاحمت کرے بلکہ سیاسی اور عوامی سطح پر ایک متوازی بیانیہ تشکیل دے جو وفاقی حکومت اور فوج کو کمزور دکھا سکے۔ ذرائع کا دعویٰ ہے کہ اس مذموم منصوبے کا خاکہ مراد سعید نے تیار کیا ہے، جس کے تحت صوبے میں سول پاور ایکٹ کی واپسی کے بعد فوج کے پاس انفارمیشن بیسڈ آپریشن کے اختیارات محدود ہو جائیں گے۔ اس طرح، بنوں، کرک، ڈی آئی خان اور کرم جیسے حساس اضلاع میں پولیس کالعدم ٹی ٹی پی کے رحم و کرم پر رہ جائے گی۔ بعد ازاں، پی ٹی آئی کے بیرونِ ملک بیٹھے سوشل میڈیا نیٹ ورکس کے ذریعے یہ تاثر پیدا کیا جائے گا کہ وفاقی حکومت اور فوج دہشت گردی کے سامنے بے بس ہیں، جس سے عالمی سطح پر پاکستان کی ساکھ پر منفی اثر پڑے گا اور پی ٹی آئی اسٹیبلشمنٹ اور حکومت کو دباؤ میں لانے میں کامیاب ہو پائے گی۔

تاہم سیاسی و دفاعی ماہرین خیبرپختونخوا میں وزیر اعلیٰ کی تبدیلی کو محض "پارٹی کے اندرونی معاملات” کے بجائے ایک اسٹریٹجک قدم قرار دے رہے ہیں، جس کے قومی سلامتی پر دور رس اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔

سیکیورٹی تجزیہ کاروں کے مطابق، "اگر واقعی پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت میں تبدیلی کا مقصد ٹی ٹی پی کے خلاف فوجی آپریشن کو روکنا ہے تو یہ نہ صرف قومی پالیسی سے انحراف ہوگا بلکہ ایک ایسے وقت میں جب سرحدی علاقوں میں عسکریت پسندی دوبارہ سر اٹھا رہی ہے، یہ اقدام ریاستی موقف کو کمزور کر سکتا ہے۔”

سیاسی تجزیہ کاروں کے بقول گنڈاپور کے ہٹائے جانے کا وقت بہت معنی خیز ہے۔ ایک طرف پاکستانی فوج نے شمالی وزیرستان اور باجوڑ میں کارروائیوں کا دائرہ وسیع کیا ہے اور افغانستان کے ساتھ کشیدگی اپنے عروج پر ہے تو دوسری طرف پی ٹی آئی قیادت کی طرف سے ایک ایسے شخص کو وزیر اعلیٰ بنادیا گیا ہے جو عسکری آپریشن کے مخالف ہیں، یہ واضح طور پر اسٹیبلشمنٹ کیلئے پیٖغام ہے کہ ہم آپ کی پالیسیوں سے مطمئن نہیں ہیں۔ مبصرین کے مطابق "ریاست کی کمزور سیاسی حکمتِ عملی ہمیشہ انتہا پسند گروہوں کو تقویت دیتی ہے۔ اگر پی ٹی آئی واقعی آپریشن کے راستے میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کرتی ہے، تو یہ وفاقی حکومت اور عسکری اداروں کے ساتھ براہِ راست تصادم کا باعث بن سکتی ہے۔

تحریک انصاف کے اندرونی ذرائع کا کہنا ہے کہ عمران خان سمجھتے ہیں کہ ٹی ٹی پی سے براہِ راست محاذ آرائی کے بجائے سیاسی مکالمہ اور مقامی مصالحتی ماڈل زیادہ مؤثر ہو سکتا ہے۔ سہیل آفریدی چونکہ قبائلی علاقوں سے گہرا تعلق رکھتے ہیں، اس لیے عمران خان انہیں "مصالحتی فریم ورک” کا چہرہ بنانا چاہتے ہیں۔ تاہم، ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ نظریہ زمینی حقائق سے مطابقت نہیں رکھتا کیونکہ ماضی میں طالبان سے مذاکرات کے تمام تجربے ناکام ثابت ہوئے، اور طالبان نے بارہا معاہدوں کی خلاف ورزی کی ہے اور وہ معاہدوں کے بعد مزید طاقتور ہو کر ریاست پر حملہ آور ہوئے ہیں۔

ناقدین کے مطابق، عمران خان کا رویہ ہمیشہ مرکزی ریاستی پالیسیوں سے فاصلہ رکھنے کا رہا ہے، تاکہ انہیں کسی بھی ممکنہ عسکری یا سفارتی ناکامی کی ذمہ داری سے بری رکھا جا سکے۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کا حالیہ قدم ایک دو دھاری تلوار ہے ، اگر یہ پالیسی وفاقی حکومت سے ٹکرا گئی تو عمران خان اپنے لیے ایک نیا محاذ کھول لیں گے، لیکن اگر وہ طالبان مخالف آپریشن کو مؤخر کرنے میں کامیاب ہو گئے تو یہ عسکری اور سیاسی قیادت کے درمیان نیا تناؤ پیدا کر سکتا ہے۔ ناقدین کے مطابق سہیل آفریدی کی تقرری بظاہر ایک اندرونی سیاسی فیصلہ نظر آتا ہے، مگر درحقیقت یہ عمران خان کی اس بڑی حکمتِ عملی کا حصہ ہے جو وہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات میں دباؤ ڈالنے کے لیے بروئے کار لا رہے ہیں۔ اگر واقعی ان کا ہدف ٹی ٹی پی کے خلاف آپریشن کو روکنا ہے تو یہ صرف خیبر پختونخوا ہی نہیں بلکہ پورے ملک کی سلامتی پالیسی پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔ماہرین کے نزدیک، اگر خیبر پختونخوا کی حکومت وفاقی اور عسکری حکمت عملی سے ہٹ کر کوئی متوازی پالیسی اپناتی ہے، تو یہ نہ صرف قومی سلامتی کے لیے خطرناک ہوگاتاہم نئے وزیراعلیٰ کی تقریر سے ایسا لگ رہا ہے کہ پی ٹی آئی اب اداروں کے ساتھ تصادم کے راستے پر مزید تیزی سے چل نکلی ہے اور آئندہ چند ہفتوں میں یہ بات واضح ہو جائے گی کہ سہیل آفریدی کو اصل میں وزیراعلیٰ لانے کا بنیادی مقصد کیا تھا ۔

 

Back to top button

Adblock Detected

Please disable the adblocker to support us!