وزیراعظم آزادکشمیرکے خلاف تحریک عدم اعتمادتاخیرکاشکارکیوں؟

پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے مابین باہمی سیاسی مفادات کی جاری کشمکش کی وجہ سے آزادکشمیر میں اِن ہاؤس تبدیلی کا عمل تاخیر کا شکار ہے۔ جہاں ایک طرف پیپلز پارٹی عددی برتری کے باوجود نئے قائد ایوان کے نام پر اتفاق رائے پیدا کرنے میں ناکام دکھائی دیتی ہے وہیں مسلم لیگ ن کی جانب سے قبل از وقت انتخابات پر اصرار نے معاملے کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے جبکہ دوسری جانب پیپلز پارٹی ترقیاتی بجٹ اور سرکاری تقرریوں سے سیاسی فائدہ حاصل کرنے کیلئےاسمبلی کی مدت پوری کرنے پر بضد ہے۔ دونوں جماعتوں کے اس ڈیڈ لاک نے آزاد کشمیر کی سیاسی صورتحال کو غیر مستحکم بنا دیا ہے۔
ذرائع کے مطابق عددی برتری کے دعوؤں کے باوجود آزاد جموں و کشمیر اسمبلی میں اِن ہاؤس تبدیلی کے معاملے میں پیپلز پارٹی کی ہائی کمان نے تاحال متبادل قائد ایوان کی نامزدگی نہیں کی۔ متبادل قائد ایوان کے بغیر تحریک عدم اعتماد جمع ہونے میں مسلسل تاخیر ہو رہی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کی وطن واپسی پر ہی عدم اعتماد جمع کرانے کا فیصلہ متوقع ہے۔
ذرائع کے مطابق مسلم لیگ ن کا آزاد کشمیر میں قبل از وقت انتخابات منعقد کرانے کا مطالبہ بھی تاخیر کی وجہ بنا ہوا ہے تاہم پیپلز پارٹی نون لیگ کی اس تجویر کو ماننے پر بالکل تیار نہیں کیونکہ پیپلز پارٹی قیادت جانتی ہے کہ قبل از وقت انتخابات کی صورت میں اِن ہاؤس تبدیلی سے پیپلز پارٹی کوسیاسی فائدہ نہیں پہنچ پائے گا۔ ذرائع کے مطابق آزاد کشمیر حکومت کا 80 فیصدترقیاتی بجٹ ابھی خرچ ہونا باقی ہے جس کیلئے پیپلز پارٹی مزید وقت کی متقاضی ہے۔ پیپلز پارٹی قیادت چاہتی ہے کہ الیکشن اپنے وقت پر ہوں تاکہ اسے ترقیاتی فنڈز خرچ کرنے کے ساتھ ساتھ نئی سرکاری بھرتیوں کا موقع مل سکے۔
خیال رہے کہ آزاد کشمیر کی موجودہ اسمبلی کی مدت جولائی 2026 میں ختم ہو رہی ہے جبکہ انتخابات سے 2 ماہ قبل تمام ترقیاتی کام روک کر نوکریوں پر تقرریوں اور تبادلوں کے اختیارات ختم کر دئیے جاتے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ مارچ میں انتخابات کے مطالبے پر مصر ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انتخابات سے 2 ماہ قبل یعنی جنوری ہی میں اب بننے والی نئی حکومت اختیارت سے محروم ہو جائے گی۔ پیپلز پارٹی کا سمجھتی ہے کہ وہ دو ماہ یعنی دسمبر، جنوری میں مطلوبہ سیاسی اہداف حاصل نہیں کر پائے گی۔ اسی لئے پیپلز پارٹی اسمبلی کی مدت پوری کرنے پراصرار کر رہی ہے جس کی وجہ سے دونوں جماعتوں میں ڈیڈ لاک پیدا ہو چکا ہے جس کی وجہ سے آزاد کشمیر میں ان ہاؤس تبدیلی کا عمل تاخیر کا شکار ہو رہا ہے۔
تاہم دوسری جانب بعض دیگر ذرائع کا دعویٰ ہے کہ پیپلز پارٹی قیادت تاحال آزاد کشمیر کے نئے قائد ایوان کے نام پر اتفاق رائے پیدا کرنے میں ناکام دکھائی دیتی ہے آزاد کشمیر کے اگلے وزیر اعظم کیلئے کسی ایک نام پر اتفاق نہ ہونے کی وجہ سے ہی نمبر گیم پوری ہونے کے باوجودنہ تو موجودہ وزیراعظم چوہدری انوار الحق کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد جمع کرائی جا سکی ہے اور نہ ہی ان کے مستعفی ہونے کے کوئی آثار نظر آ رہے ہیں۔
سپریم کورٹ بار کے بعد PTI کے پی بار کا الیکشن بھی ہار گئی
خیال رہے پیپلز پارٹی کی جانب سے آزاد کشمیر کی وزارت عظمیٰ کیلئے 4 ناموں پر غور کیا گیا جا رہا ہے۔ جن میں چودھری یاسین، لطیف اکبر، فیصل ممتاز راٹھور اور سردار یعقوب کے نام شامل ہیں۔ذرائع کے مطابق اسپیکر چوہدری لطیف اکبر نئے قائد ایوان کے لیے فیورٹ ہیں تاہم پارٹی صدر ہونے کی وجہ سے قرعہ چوہدری یاسین کے نام بھی نکل سکتا ہے۔ ذرائع کے مطابق صدر مملکت آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو کے درمیان گزشتہ روز ہونے والی اہم ملاقات میں نئے قائدِ ایوان کے انتخاب پر مشاورت تقریباً مکمل ہو چکی ہے، اور امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ جلد پیپلز پارٹی اپنا حتمی امیدوار سامنے لے آئے گی۔
یاد رہے کہ موجودہ وزیراعظم چوہدری انوارالحق نے پیپلز پارٹی کے مطابلبے پر استعفی’ دینے سے انکار کر دیا ہے، جس کے باعث اب تحریک عدم اعتماد جمع کرائی جائے گی۔ ذرائع کے مطابق تحریک عدم اعتماد پر پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے ارکان نے دستخط کر دئیے ہیں، صرف نئے قائد ایوان کا نام لکھنا باقی ہے۔ مسلم لیگ ن تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے لیے پیپلز پارٹی کا ساتھ دے گی تاہم نئے وزیراعظم کے انتخاب میں ساتھ نہیں دے گی بلکہ اپوزیشن بینچوں پر بیٹھے گی۔ مبصرین کے مطابق آزاد کشمیر کی قانون ساز اسمبلی میں اپنا وزیرِ اعظم لانے کے لیے کسی بھی جماعت کو کم از کم 27 اراکینِ اسمبلی کی حمایت کی ضرورت ہوتی ہے۔تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق اسمبلی میں پی پی پی کے پاس اس وقت 17، مسلم لیگ (ن) کے پاس 9، پی ٹی آئی کے پاس چار، پی ٹی آئی فاروڈ بلاک بیرسٹر سلطان گروپ کے پاس سات، پی ٹی آئی وزیراعظم انوار گروپ کے پاس آٹھ، مہاجرین گروپ کے پاس چار جبکہ مسلم کانفرنس، جے کے پی پی اور علمائے مشائخ کے پاس ایک، ایک نشست ہے۔ ذرائع کے مطابق آزاد کشمیر قانون ساز اسمبلی کے 52 اراکین میں مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کے 29 ارکان میں سے تقریباً 18 نے گروپ بندی کے بعد پیپلز پارٹی کی حمایت کا عندیہ دے رکھا ہے۔ اس کے علاوہ مسلم کانفرنس اور آزاد اراکین بھی ممکنہ طور پر نئی صف بندی کا حصہ بن سکتے ہیں۔ ان اعداد و شمار کے مطابق پیپلز پارٹی کے پاس مطلوبہ اکثریت کے لیے درکار 27 ووٹوں سے زیادہ حمایت موجود ہے، لیکن وزارتِ عظمیٰ کے امیدوار پر اختلافات کے باعث پارٹی نے باضابطہ طور پر تحریک عدم اعتماد لانے کا فیصلہ مؤخر کر رکھا ہے۔پارٹی ذرائع کے مطابق آزاد کشمیر کے اگلے وزیراعظم کے لیے کسی ایک نام پر قیادت اور پارلیمانی اراکین میں اتفاق نہ ہونے کے باعث آزاد کشمیر میں وزیر اعظم کی تبدیلی کا عمل تعطل کا شکار ہے۔
یاد رہے کہ 2021 میں تحریکِ انصاف 26 نشستوں کے ساتھ اقتدار میں آئی تھی اور پی ٹی آئی نے نو آزاد امیدواروں کی حمایت کے ساتھ آزاد کشمیر میں حکومت بنائی تھی لیکن وفاق میں اقتدار ختم ہونے کے بعد آزاد کشمیر کی اسمبلی میں پی ٹی آئی فارورڈ بلاکس میں تقسیم ہو گئی تھی۔ پی ٹی آئی کے پہلے وزیرِ اعظم عبدالقیوم نیازی کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ہٹایا گیا تھا جبکہ چوہدری تنویر الیاس ایک عدالتی حکم کے سبب اس منصب سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔ جس کے بعد پیپلز پارٹی اور نون لیگ کی حمایت سے پی ٹی آئی کے ہی فارورڈ بلاک سے تعلق رکھنے والے انوار الحق وزیر اعظم آزاد کشمیر منتخب ہوئے تھے۔ تاہم اب اسی پیپلز پارٹی اور نون لیگ نے انھیں اقتدار سے ہٹانے کا فیصلہ کر لیا ہے کیونکہ پی پی پی اور ن لیگ آزاد کشمیر میں حالیہ دنوں ہونے والے احتجاجی مظاہروں اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورتحال کا اصل ذمہ دار وزیرِ اعظم انوار الحق کو سمجھتی ہے کہ ان کی وجہ سے حالات یہاں تک پہنچے کہ وفاقی حکومت کو مداخلت کر کے حالات کو کنٹرول کرنا پڑا۔
