تحریک انصاف کی احتجاج کی کال اب کامیاب کیوں نہیں ہوگی؟

تحریک انصاف نے عمران خان کی رہائی کیلئے بیک وقت ترلوں اور منتوں کے ساتھ ملک گیر احتجاج کی دھمکیوں کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے تاہم پی ٹی آئی کے قریبی حلقوں کے مطابق تحریک انصاف اس وقت شدید اندرونی انتشار اور خلفشار کا شکار ہے اور پارٹی رہنما باہمی دست و گریبان ہیں۔

اس صورت میں قیادت سے مایوس یوتھیوں کو سڑکوں پر لانا ناممکن  دکھائی دیتا ہے اسی وجہ سے پارٹی قیادت پریشانی سے دوچار ہے اور مسلسل احتجاج کی تاریخیں بدلی جا رہی ہیں۔  جبکہ دوسری جانب اتحادی حکومت نے بھی ملک میں سیاسی انتشار پھیلانے والوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کا فیصلہ کر لیا ہے اور اس حوالے سے مربوط حکمت عملی مرتب کر لی ہے۔

مبصرین کےمطابق وزیراعلی خیبر پختونخواہ علی امین گنڈاپور کی جانب سے عمران خان کی رہائی کیلئے پورا ملک بند کر دینے کی دھمکی عملی طور پر ایک گیدڑ بھبکی کے سوا کچھ بھی نہیں چونکہ پچھلے دو ماہ میں تحریک انصاف کی جانب سے احتجاج کی جو بھی کالز دی گئیں وہ ساری ناکام ہی رہیں جس کے بعد پارٹی کارکن بھی مایوس ہو چکے ہیں۔

جہاں ایک طرف پارٹی رہنما گرفتاریوں کے ڈر سے بلوں میں چھپے بیٹھے ہیں وہیں دوسری جانب پارٹی میں گروپنگ سامنے آنے کے بعد کارکنان بھی میدان میں آنے سے گریزاں ہیں۔ جس کی وجہ سے پی ٹی آئی کا ملک گیر احتجاجی پروگران کھٹائی میں پڑگیا ہےجبکہ پارٹی قیادت نے آٹھ نومبر کو پشاور میں ہونے والا جلسہ بھی منسوخ کر دیاہے۔

پی ٹی آئی ذرائع کے مطابق پی ٹی آئی قیادت نے گرفتاریوں اور دیگر مسائل سے بچنے کے لئے نئی حکمت عملی پر غور شروع کردیا ہے۔ ادھر وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور نے 9 نومبر کو صوابی میں جلسے کا اعلان کیا ہے جس میں ملک بھر اور خاص طور پر اسلام آباد میں احتجاج اور دھرنے کی تاریخ دیئے جانے کا امکان ہے۔

دوسری جانب بشریٰ بی بی ایک بار پھر پشاور پہنچ گئی ہیں۔ اگلے چوبیس گھنٹوں کے دوران وزیراعلیٰ ہائوس میں اہم اجلاس منعقد ہونے اور اہم ترین فیصلوں کا بھی امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔پی ٹی آئی پنجاب کی قیادت نے بھی پشاور کا رخ کرنا شروع کر دیاتاکہ شرپسندی کی پلاننگ مکمل کی جا سکے۔

اس حوالے سے وزیر اعلٰی خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور کا کہنا ہے کہ’’ہم نے ایک پلان بنا رکھا ہے۔ اب ہم باہر نکل کر عوامی طاقت کے ذریعے اس حکومت سے چھٹکارا حاصل کریں گے‘‘۔ وزیراعلیٰ کا کہنا تھا کہ ’’9 نومبر کو صوابی میں موٹروے پر جلسہ ہوگا اور ہم پورے پاکستان سے لوگوں کو اکھٹا کریں گے۔ وہاں ہم ذمہ داریاں دیں گے اور فائنل کال کا اعلان کریں گے۔ میرے گھر والوں کو پیغام ہے اگر میں واپس نہ آیا تو جنازہ پڑھ لینا۔

اب ہم تابوت میں آخری کیل ٹھوکنے کے لیے آئیں گے۔ ہم نے اپنا مینڈیٹ واپس لینا ہے‘‘۔انہوں نے ڈیل کی تردید کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ’’ڈیل کے حوالے سے چلنے والی باتوں میں کوئی حقیقت نہیں ہے۔ ہم نے ثابت کردیا کہ اسلام آباد آسکتے ہیں۔ ہم بھی گرفتاریوں سے بچنے کے لیے پلان کریں گے۔ اب جو ہمیں روکنے آئے گا تو ہم لوگ بھی مزاحمت کریں گے‘‘۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ بانی پی ٹی آئی کی رہائی کے لئے تحریک انصاف نے بھرپور تصادم کی پالسیسی اپنانے کا منصوبہ بنایا ہے جس کے تحت وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں دھرنا اور احتجاج بھی شامل ہے۔

تاہم تجزیہ کاروں کے مطابق پی ٹی آئی کی جانب سے ملک گیر احتجاج کے دعوے تو کئے جا رہے ہیں تاہم تحریک انصاف کے اس حوالے سے خواب پورے ہوتے نظر نہیں آتے کیونکہ اسلام آباد سمیت لاہور جلسے میں پارٹی رہنمائوں کے رویے سے کارکنان ناراض ہیں اور وہ پارٹی قیادت کے کسی اعلان پر سڑکوں پر آ کر دھلائی کروانے سے انکاری ہیں۔

جبکہ حکومت نے ملک میں انتشار اور افراتفری پھیلانے کے حوالے سے زیرو ٹالرنس پالیسی اپنانے کا فیصلہ کیا ہے اور ملک میں بدامنی پھیلانے والوں  سے دہشتگردوں والا سلوک کرنے کا عندیہ دے دیا ہے جس کے تحت وفاق پر یلغار کرنے والوں کی نہ صرف بھرپور دھلائی اور ٹھکائی کی جائے گی بلکہ ان کیخلاف دہشتگردی کی دفعات کے تحت سخت مقدمات درج کروا کر انھیں سخت سزائیں بھی دلوائی جائیں گی۔

Back to top button