سپریم کورٹ میں 6 ججز آنے سے عمرانڈو ججز اقلیت میں چلے گے

عمراندار ججز کے اعتراضات سے بھرپور خطوط اور تحریک انصاف کے حامی وکلا کی پر زور مخالفت کے باوجود وفاقی حکومت سپریم کورٹ میں اپنی مرضی کے 6 ججز لگانے میں کامیاب ہو گئی ہے جس سے عمرانڈو ججز کی اکثریت اب اقلیت میں بدل جائے گی۔ بنیادی طور پر وفاقی حکومت اٹھ ججز کو سپریم کورٹ میں تعینات کرنا چاہتی تھی لیکن چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس یحییٰ آفریدی کی مخالفت کے باعث لاہور ہائی کورٹ کے 2ججز کو سپریم کورٹ لے جانے کے حوالے سے حتمی فیصلہ نہیں ہو پایا۔ لیکن جوڈیشل کمیشن نے چھ ججز کو سپریم کورٹ میں تعینات کرنے کی منظوری دے دی۔

جوڈیشل کمیشن آف پاکستان نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق، سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس شفیع صدیقی، بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس ہاشم کاکڑ اور پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اشتیاق ابراہیم سمیت چھ ججز کو سپریم کورٹ کا جج بنانے کی منظوری دے دی ہے۔ جن دو دیگر ججز کو سپریم کورٹ کا جج بنانے کی منظوری دی گئی ہے ان میں پشاور ہائیکورٹ کے جسٹس شکیل احمد اور سندھ ہائیکورٹ کے جسٹس صلاح الدین پنہور بھی شامل ہیں۔ 10 جنوری کو اسلام آباد میں وکلا کے احتجاج اور سپریم کورٹ کے ہی چار ججز کے اعتراضات کے باوجود ملک کی سب سے بڑی عدالت میں آٹھ نئے ججز کی تعیناتی کے لیے جوڈیشل کمیشن کا اجلاس چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں ہوا۔

تاہم کمیشن کے اراکین میں سے جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر کے علاوہ تحریک انصاف کے چیئرمین بیرسٹر گوہر اور بیرسٹر علی ظفر نے کارروائی میں حصہ نہیں لیا۔ عمرانڈو کہلانے والے جسٹس منصور اور جسٹس منیب سپریم کورٹ کے ان چار ججوں میں شامل ہیں جنھوں نے نئے ججوں کی تعیناتی کا معاملہ 26ویں آئینی ترامیم سے متعلق درخواستوں پر فیصلے تک ملتوی کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔

اجلاس کی کارروائی میں شرکت نہ کرتے ہوئے چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر علی خان اور علی ظفر نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کے ججز اور انھوں نے جوڈیشل کمیشن کے آج ہونے والے اجلاس میں شرکت نہیں کی کیونکہ ہم چاہتے تھے کہ پہلے سنیارٹی کے مسئلے کا فیصلہ ہو۔ جب ہمارے تحفظات کے باوجود اس اجلاس کو مؤخر نہیں کیا گیا تو پھر ہم نے بھی اجلاس میں شرکت کرنا مناسب نہیں سمجھا۔ بیرسٹر علی ظفر نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ‘ہم نے جوڈیشل کمیشن کا اجلاس ملتوی کرنے کی درخواست کی ہماری بات نہیں مانی گئی تو ہمیں یہی ہدایات تھیں کہ ہم اس کا حصہ نہ بنیں۔’

بیرسٹر گوہر خان نے تسلیم کیا کہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن اور پاکستان بار کونسل جیسی بڑی اور نمائندہ وکلا تنظیمیں ججوں کے تبادلوں کے خلاف نہیں تاہم ان کا کہنا تھا کہ وہ اس کی مخالفت جاری رکھیں گے۔ واضح رہے کہ جوڈیشل کمیشن کی تشکیل میں حکمراں جماعت اور ان کے حمایتی وکلا نمائندوں کو برتری حاصل ہے۔ اس کے بعد چیف جسٹس آف پاکستان یحییٰ آفریدی کی سربراہی میں ہوئے جوڈیشل کمیشن کے اجلاس میں ملک کی تمام ہائی کورٹس کی جانب سے بھیجے گئے ناموں پر غور کیا گیا اور چھ ججز کو سپریم کورٹ بھجوانے کا فیصلہ ہوا۔

یاد رہے کہ حکومت نے سادہ بل کے ذریعے سپریم کورٹ میں ججز کی تعداد کو 34 تک کر دی تھی اور 8 ججز کی تعیناتی کے بعد سپریم کورٹ میں ججز کی تعداد 24 ہو جائے گی۔ ملک کی چاروں ہائی کورٹس سے پانچ پانچ سینئر ججز کے نام طلب کیے گئے جبکہ اسلام آباد ہائی کورٹ سے تین ججز کے نام جوڈیشل کونسل کو بھیجے گئے۔

اس سے پہلے سپریم کورٹ میں آٹھ ججز کی تعیناتی کے معاملے پر سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس منصور علی شاہ سمیت چار ججز نے چیف جسٹس پاکستان کو خط لکھا جس میں یہ تجویز پیش کی گئی کہ 26ویں ترمیم کیس کے فیصلے تک آٹھ ججز کی تعیناتی کے عمل کو موخر کیا جائے۔ دیگر ججز میں جسٹس منیب اختر، جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس اطہرمن اللہ شامل تھے۔ خط میں کہا گیا ہے کہ 26ویں آئینی ترمیم کیس میں آئینی بینچ فل کورٹ کا کہہ سکتا ہے۔ خط میں کہا گیا کہ نئے ججز آئے تو فل کورٹ کون سی ہو گی یہ ایک نیا تنازع بنے گا۔

تاہم وفاقی وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ کا کہنا ہے کہ کچھ عمراندار ججز نے سپریم کورٹ میں 8 ججز کی تعیناتی کے عمل میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کی جو ناکام ہو گئی اور آئینی عمل پر امن طریقے سے مکمل ہو گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ بدقسمتی سے چند وکلا اور ججز نے اپنی دکانیں چمکانے کے لیے ڈرامے بازی کی کوشش کی جو ناکام رہی۔ انھوں نے کہا کہ قانون سازی پارلیمنٹ کا کام ہے اور وہ جو بھی قانون سازی کرے ججز اور وکلا کو اس کے ساتھ کھڑے ہونا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ 26 ویں ترمیم کے ذریعے پارلیمنٹ نے ججز کی تعداد 34 کر دی تھی اور ابھی 10 ججز کی مزید تعیناتی ہونا باقی ہے۔ انھوں نے کہا کہ اگر کسی سیاسی جماعت کو کوئی قانون پسند نہیں ہے تو اگلے انتخابات میں دو تہائی اکثریت کے ساتھ اس قانون کو تبدیل کر سکتے ہیں۔

Back to top button