ن لیگ سے اختلافات کے باوجود پیپلز پارٹی حکومت کے ساتھ رہے گی

پیپلز پارٹی اور نون لیگ میں اختلافات ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتے نظر آ رہے ہیں، وفاقی بجٹ اجلاس کے بعد پنجاب اسمبلی کی بجٹ سیشن میں پیپلز پارٹی نے علامتی شرکت کر کے اپنی ناراضی کا اظہار کر دیا ہے۔ جبکہ دوسری جانب تحفظات کے ازالے کیلئے نون لیگی وفد کی پیپلزپارٹی قیادت کے ساتھ ہونے والی ملاقاتوں میں کوئی بریک تھرو نہیں ہو سکا تاہم لیگی قیادت پر امید ہے کہ جلد پیپلز پارٹی کے تمام مطالبات پورے کر دئیے جائیں گے تاہم دوسری جانب سینئر صحافی انصار عباسی کا کہنا ہے کہ جس وقت عمران خان حکمران جماعت نون لیگ اور پیپلز پارٹی کے درمیان تعلقات کی بنیادی وجہ بنے ہوئے ہیں اسی وقت مریم نواز کا طرز حکمرانی بلاول بھٹو کی پارٹی کیلئے پریشان کن ہے۔بجٹ کے حوالے سے کچھ معاملات ایسے ہیں جو پیپلز پارٹی کیلئے باعث پریشانی ہیں لیکن پیپلز پارٹی کو سنگین تشویش اور شکایت اس بات پر ہے کہ پنجاب میں اسے سیاسی جگہ نہیں مل رہی حالانکہ جس وقت پیپلز پارٹی نے نون لیگ کی مدد کیلئے حکومت بنانے میں اس کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا تھا اس وقت پیپلز پارٹی کو اس معاملے پر یقین دہانی کرائی گئی تھی۔

ذرائع کے مطابق، پیپلز پارٹی پنجاب کی بیوروکریسی بالخصوص ان اضلاع میں تقرریوں میں اپنا حصہ چاہتی ہے جہاں پیپلز پارٹی کی پارلیمانی موجودگی ہے۔ تاہم مریم نواز سیاستدانوں کی سفارشات پر بیوروکریسی میں تبدیلیاں کرنے کو تیار نہیں۔کہا جاتا ہے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب نے اپنی پارٹی کے ارکان اسمبلی سے بھی واضح طور پر کہہ دیا ہے کہ سول انتظامیہ اور پولیس میں سیاسی مداخلت ناقابل قبول ہوگی۔ وزیر اعلیٰ کے اس فیصلے سے نہ صرف نون لیگ کے کئی ارکان صوبائی اسمبلی بے چین ہیں بلکہ یہ صورتحال پنجاب میں موجود پیپلز پارٹی کے ارکان صوبائی و قومی اسمبلی کیلئے بھی باعث تشویش ہے۔

یہ واضح نہیں کہ آیا مریم نواز پنجاب سے پیپلز پارٹی کے ارکان صوبائی و قوم اسمبلی کو اپنے اپنے علاقوں میں من پسند افسران رکھنے کی اجازت دیں گی۔ ایک نون لیگی ذریعے کا کہنا تھا کہ انہیں نہیں لگتا کہ وزیراعلیٰ ایسی کوئی اجازت دیں گی۔بدھ کو پیش کردہ بجٹ پر نون لیگ کیخلاف پیپلز پارٹی کے تحفظات پر اگرچہ میڈیا متوجہ ہوا ہے لیکن یہ کوئی سنجیدہ معاملہ نہیں اور اس سے شہباز حکومت کو کوئی حقیقی خطرہ بھی نہیں ہوگا۔ پس پردہ بات چیت سے معلوم ہوتا ہے کہ پنجاب کے معاملے سمیت دونوں فریقوں کے درمیان چاہے جتنے بھی اختلافات ہوں، پیپلز پارٹی عمران خان کے طرز سیاست کے باعث شہباز حکومت گرنے نہیں دے گی۔

انصار عباسی کے مطابق عمران خان کی ملٹری اسٹیبلشمنٹ پر مسلسل تنقید دراصل شہباز حکومت کی طاقت کا بنیادی ذریعہ ہے۔ یہ صورتحال کچھ معاملات پر اختلافات کے باوجود نون لیگ اور پیپلز پارٹی کو متحد رکھے ہوئے ہے۔ کچھ طاقتور اسٹیک ہولڈرز کے خیال میں موجودہ حکومت کے کمزور ہونے یا نون لیگ اور پیپلز پارٹی کے درمیان کسی بھی شدید رسہ کشی کا مطلب عمران خان اور پی ٹی آئی کی مضبوطی ہوگا۔کہا جاتا ہے کہ کچھ پوشیدہ قوتیں نون لیگ اور پیپلز پارٹی کے درمیان علیحدگی ہونے نہیں دیں گی۔ انصار عباسی کے بقول 8 فروری کے انتخابات کے نتیجے میں حکومت میں شامل ہونے کا فیصلہ کرنے والی پیپلز پارٹی شہباز شریف کی کابینہ میں شامل نہیں ہوئی۔ تاہم پیپلز پارٹی کو صدارت، چیئرمین سینیٹ، ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی اور دو گورنرز کے عہدے مل گئے۔ پیپلز پارٹی نے اس بات پر اتفاق کیا تھا کہ وہ حکومت کو گرنے نہیں دے گی۔

کون کون سے چیلنجز شہباز حکومت کی بنیادیں ہلانے والے ہیں؟

تاہم دوسری جانب پیپلز پارٹی کی سینئر رہنما شیری رحمان کے مطابق نون لیگ کی جانب سے ہمارے ساتھ تحریری طور پر طے کردہ مطالبات پورے نہیں کئے جا رہے، پنجاب میں دوسرے اتحادیوں کی اسکیمیں بجٹ میں شامل کی گئی ہیں مگر پیپلز پارٹی کی نہیں۔شیری رحمان نے کہا کہ ن لیگ کے ساتھ معاملات میں اب تک پیش رفت ہوجانی چاہیے تھی کیونکہ ہمارا اُن کے ساتھ اتحاد قائم کرتے وقت تحریری معاہدہ ہوا تھا، لیکن ن لیگ نے ہم سے مشاورت کرنے میں بہت دیر کردی۔پی پی پی رہنما نے کہا کہ سیاست میں ٹائمنگ بہت اہم ہوتی ہے، پیش رفت ہورہی ہے مگر بہت دیر میں ہورہی ہے،ابھی بھی وقت ہے ڈائیلاگ کے ذریعے مسائل کو حل کیا جائے۔دوسری جانب لیگی رہنما اور وزیراعظم کے مشیر برائے سیاسی امور رانا ثناء اللہ کا کہنا ہے کہ عید کے بعد پی پی پی وفد کی وزیراعلیٰ پنجاب سے ملاقا ت ہوگی پیپلز پارٹی نے ہم سے ملاقات کے دوران کوئی گلہ نہیں کیا، پی پی پی سے تمام ایشوز پر بات ہوئی جس کے حل کیلئے طریقہ نکالا گیا، پیپلز پارٹی پوری طرح سے ہمارے ساتھ ہے، جب ووٹ کی باری آئے گی پی پی پی ہمارے ساتھ ہی کھڑی ہوگی۔

Back to top button