الیکشن ایکٹ میں ترمیم کے خلاف پی ٹی آئی کی درخواست پر سماعت 4 دسمبر کو ہوگی

سپریم کورٹ کا 6 رکنی آئینی بینچ الیکشن ایکٹ 2017 میں ترامیم پر عمل درآمد کےخلاف تحریک انصاف کی جانب سے دائر درخواستوں پر سماعت کرےگا۔

جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا آئینی بینچ چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر علی خان،محمد قیوم خان اور چوہدری اشتیاق احمد خان کی درخواستوں پرسماعت کرے گا۔

جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس حسن اظہر رضوی،جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس نعیم اختر افغان پر مشتمل بینچ رجسٹرار کی جانب سےاٹھائے گئے اعتراضات کے خلاف دونوں اپیلوں کی سماعت کرےگا۔

یاد رہے کہ سپریم کورٹ کےرجسٹرار آفس نے مذکورہ درخواستوں پر اعتراضات عائد کر رکھےہیں تاہم آئینی بینچ نے درخواستیں اور اعتراضات کےخلاف اپیلیں ایک ساتھ سماعت کے لیےمقرر کر دی ہیں۔

یہ درخواست 7 اگست کو پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کی جانب سے الیکشن (دوسری ترمیم) بل 2024 کی منظوری کے بعد دائر کی گئی تھی، پی ٹی آئی نےاس بل کو سپریم کورٹ پر حملہ قرار دیا اور کہا کہ وہ ان تبدیلیوں کو چیلنج کرےگی۔

پی ٹی آئی کےسیکریٹری جنرل سلمان اکرم راجا نے عدالت سے استدعا کی تھی کہ الیکشن کمیشن کو خواتین اور غیر مسلم کے لیےمخصوص نشستیں دوسری جماعتوں کو الاٹ کرنے سے روکا جائےاور ترمیم شدہ قانون کو کالعدم قرار دیا جائے۔

قانونی مبصرین کا کہنا ہےکہ اگر آئینی بینچ الیکشن ایکٹ 2024 میں دوسری ترمیم کی منظوری دےدیتا ہے تو 12 جولائی کو 8 اکثریتی ججوں کی جانب سےپی ٹی آئی کو مخصوص نشستیں دینے کا فیصلہ کالعدم ہو جائےگا۔

پی ٹی آئی نےسپریم کورٹ میں موقف اختیار کیا کہ ترمیم کے نفاذ سے قبل آئین اور الیکشن ایکٹ کے تحت ہونے والی ماضی کی ٹرانزیکشنز کو نئےقانون کےذریعے ختم نہیں کیا جاسکتا۔

درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ الیکشن ایکٹ کی دفعہ 3 میں آرٹیکل 51 اور 106 کے تحت مخصوص نشستوں کے لیےامیدواروں کی فہرستیں جمع کرانے کے حوالے سے آئین میں شامل پابندیوں کو شامل کرنےکی کوشش کی گئی ہے۔

درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا ہےکہ واپس آنے والے امیدوار کو الیکشن کمیشن کی جانب سے غلط طور پر آزاد امیدوار قرار دیا گیا اور اپنی جماعت کے علاوہ کسی اور جماعت میں شمولیت اختیار کرنے پر مجبور کیا گیا تو اسے اصل جماعت سے وابستگی ظاہر کرنے سے نہیں روکا جا سکتا۔

واضح رہےکہ حکومتی ارکان کی جانب سے الیکشن ایکٹ 2017 میں ترمیم کا بل قومی اسمبلی سے منظور کرلیا گیا تھا، بل مسلم لیگ (ن) کے بلال اظہر کیانی اور زیب جعفر نے مشترکہ طور پر پیش کیا۔

 

گنڈاپورنےخیبرپختونخوا کیلئےایف سی پلاٹونزمانگ لیں

6 اگست کوپارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں قومی اسمبلی اور سینیٹ نے اپوزیشن کے شور شرابے اور ہنگامہ آرائی کے دوران الیکشن ایکٹ ترمیمی بل کثرت رائے سے منظور کرلیا گیا تھا۔

7 اگست کو پاکستان تحریک انصاف نےالیکشن ترمیمی ایکٹ سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا تھا۔

ترمیمی بل کے مطابق انتخابی نشان کےحصول سے قبل پارٹی سرٹیفکیٹ جمع نہ کرانے والا امیدوار آزاد تصور ہو گا، مقررہ مدت میں مخصوص نشستوں کی فہرست جمع نہ کرانےکی صورت میں کوئی سیاسی جماعت مخصوص نشستوں کی حقدار نہیں ہوگی۔

ترمیمی بل میں کہا گیا کہ کسی بھی امیدوار کی جانب سے مقررہ مدت میں ایک مرتبہ کسی سیاسی جماعت سےوابستگی کا اظہار ناقابل تنسیخ ہو گا۔

Back to top button