گنڈاپورسرکارناکامی چھپانےکے لئےسیاحتی مقامات کونوگوایریازبنانےلگی

سوات میں18سیاحوں کے سیلابی ریلے میں بہہ جانے کے بعد گنڈاپور سرکار نے حفاظتی اقدامات کے نام پر خیبرپختونخوا کے سیاحتی مقامات کو نو گو ایریا بنا دیا ہے۔ خیبر پختونخوا حکومت نے جہاں دریا کے کنارے موجود تفریحی پوائنٹس بند کر دئیے ہیں وہیں کشتی رانی اور دیگر خطرناک سرگرمیوں پر بھی مکمل پابندی عائد کر دی ہے جبکہ اچانک ان سیاحتی مقامات کی جانب جانے والے راستوں کو بند کر کے عوام کو اس طرف آنے سے بھی روک دیا ہے اور حفاظتی اقدامات کے نام پر دریاؤں کنارے قائم کئی ہوٹلز بھی بند کر دئیے ہیں۔ حکومت کی جانب سے عائد کردہ پابندیوں نے سیاحت اور عوامی تحفظ کے درمیان توازن پر سنجیدہ سوالات اٹھا دئیے ہیں۔ ناقدین کے مطابق حکومتی اقدامات کی وجہ سے جہاں سیر و سیاحت کیلئے آنے والے عوام کی مشکلات میں اضافہ ہوا ہے وہیں عوامی جان و مال کے تحفظ کے نام پر اٹھائے جانے والے ان اقدامات سے مقامی سیاحت بالکل تباہ ہو جائے گی حکومت کو اس حوالے سے مربط حکمت عملی اپنانی چاہیے تاکہ عوامی تحفظ کے ساتھ عوام اس علاقے کے خوبصورت مقامات کے نظارے بھی کر سکیں۔
خیال رہے کہ 27 جون کو سوات بائی پاس کے قریب دریا میں 18 سیاح سیلابی ریلے میں بہہ گئے تھے اور صرف چار افراد کو ہی زندہ نکالا جا سکا تھا۔ جس کے بعد حکومت نے اچانک ضلع سوات کے سیاحتی مقامات کالام، بحرین، مدین اور مینگورہ میں دریا کے کنارے سیاحتی پوائنٹس کو بند کر دیا ہے، جبکہ دریا کے کنارے قائم تجاوزات کے خلاف بھی کارروائی شروع کر دی گئی ہے۔مینگورہ بائی پاس کے قریب دریا کے کنارے قائم ہوٹلوں اور تفریح گاہوں کو مسمار کر دیا گیا ہے۔
سوات میں کچھ نجی پارکس کو تجاوزات قرار دے کر ان کے خلاف بھی کارروائی کی جا رہی ہے۔سیاحتی ریور پوائنٹ بحرین اور مدین میں بھی انتظامیہ نے کارروائی کر کے دریا کنارے قائم قیام گاہیں ہٹا دی ہیں۔دریا کے قریب سیاحوں کے بیٹھنے کے لیے کرسیاں اور چارپائیاں جبکہ فش ہٹس بھی ختم کر دیے گئے ہیں۔ انتظامیہ نے تجاوزات ہٹا کر ہوٹل مالکان پر جرمانہ عائد کرنا شروع کر دیا ہے۔
سوات کی ضلعی انتظامیہ کے مطابق دریا کے کنارے سیاحوں کے جانے پر دفعہ 144 کے تحت مکمل پابندی عائد کر دی گئی ہے۔انتظامیہ نے دریا کے قریب ٹورسٹس سپاٹ پر پولیس اہلکاروں کے ساتھ ساتھ مالاکنڈ فورس اور سول ڈیفنس کے اہلکار تعینات کر دیے ہیں۔سوات کے علاوہ اپر دیر اور چترال میں بھی پانی کے قریب سرگرمیوں پر پابندی عائد کر کے پولیس فورس کی ڈیوٹی لگا دی گئی ہے، جو سیاحوں کے علاوہ مقامی نوجوانوں کو بھی پانی میں جانے سے روک رہی ہے۔
صوبائی حکومت کی ہدایت پر سیاحتی مقامات پر ایس او پیز کے بغیر کشتی چلانے پر بھی پابندی عائد کی گئی ہے۔کالام کے علاقوں مہوڈنڈ اور ناران میں کشی رانی کے لیے این او سی کو لازمی قرار دیا گیا ہے۔ مہوڈنڈ اور شاہی باغ میں چیکنگ کے دوران این او سی، لائف جیکٹس اور دیگر حفاظتی ایس او پیز کی عدم موجودگی میں کشتی رانی سے روک دیا گیا ہے جبکہ جھیل کے قریب لیویز اہلکار تعینات کر دیے گئے ہیں۔
بحرین انتظامیہ کی جانب سے اوشو اور چھوٹا مہوڈنڈ میں زپ لائن کے معائنے کے دوران یہ انکشاف ہوا کہ آپریٹر کے پاس این او سی موجود نہیں ہے، جس پر زپ لائن انتظامیہ کو این او سی کے حصول تک کام سے روک دیا گیا ہے۔
دوسری جانب گلگت بلتستان میں سیاحوں کی پسندیدہ جگہ ریمبو پل کو بھی سیل کر دیا گیا ہے۔ ہنزہ ضلعی انتظامیہ نے پاسو پل کے دونوں جانب رکاوٹیں رکھ کر گزرگاہ کو سیل کر دیا ہے۔ ہنزہ وادی کے قریب تفریحی مقام کو بند کرنے کا فیصلہ مقامی لوگوں کی جانب سے تنقید کی زد میں ہے۔ مقامی لوگوں کی رائے ہے کہ یہ پل صرف رابطے کا ذریعہ نہیں بلکہ ایک مقبول سیاحتی مرکز بن چکا ہے۔ اسے اگر بند رکھا گیا تو مقامی سیاحت کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
دوسری جانب صوبائی حکومت نے خیبر پختونخوا میں سیاحتی مقامات میں تفریحی سرگرمیوں کو محدود کرنے کے حوالے سے موقف اختیار کیا ہے کہ یہ تمام اقدامات محفوظ سیاحت کے لیے کیے جا رہے ہیں۔مشیر اطلاعات بیرسٹر ڈاکٹر سیف کا کہنا تھا کہ تجاوزات کے خلاف بلا تفریق کریک ڈاون جاری ہے۔ امید ہے جلددریا کے کناروں کو صاف کر لیا جائے گا تاکہ دوبارہ کوئی ناخوشگوار واقعہ رونما نہ ہو۔انھوں نے مزید کہا کہ ٹورازم مینجمنٹ پر توجہ دی جا رہی ہے۔’سیاحتی مقامات کو بند نہیں کر رہے بلکہ انہیں محفوظ بنا رہے ہیں۔‘