شہبازکی خواہش کےباوجودنثارکی ن لیگ میں واپسی ممکن کیوں نہیں؟

ملک میں جاری سیاسی محاذ آرائی کے دوران شہباز کیمپ میں شامل لیگی رہنماؤں  نے ایک بار پھر چودھری نثار کی پارٹی میں واپسی کیلئے لابنگ شروع کر دی ہے۔ افواہیں گرم ہیں کہ شہباز شریف نے پارٹی کے باغی اور ناراض رہنماؤں کو منانے کے سلسلے کے طور پر سابق وزیر داخلہ چودھری نثار کے تحفظات کو دور کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور نون لیگ معافی تلافی کے بعد چودھری نثار کو واپس لے سکتی ہے۔ تاہم چودھری نثار کے قریبی حلقوں کا کہنا ہے کہ چودھری نثار کے نون لیگی قیادت کے ساتھ اصولی اختلافات تھے انھوں نے پارٹی کی پیٹھ میں چھرا نہیں گھونپا تھا اس لئے ان کی طرف سے معافی مانگنے کا تو کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ وزیراعظم شہباز شریف کی چودھری نثار کے گھر آمد کا مقصد سیاسی نہیں ذاتی تھا اس ملاقات کوکسی ڈیل سے تعبیر نہیں کرنا چاہیے۔

تاہم ذرائع کے مطابق شہباز کیمپ کی چودھری نثار کو دوبارہ نون لیگ کا حصہ بنانے کی یہ کوشش مستقبل قریب میں ثمرآور ہوتی نظر نہیں آتی کیونکہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد محمد نواز شریف نے جب سے چوہدری نثار علی خان سے قطع تعلق کیا ہے اس کے بعد سے بسیار کوششوں کے باوجود وہ چوہدری نثار علی خان کو معاف کرنے کو تیار نہیں ہوئے حتیٰ کہ انھوں نے چودھری نثار سے ملاقات تک کی کوششوں  کو کامیاب نہیں ہونے دیا جبکہ مریم نواز کی مخالفت کی وجہ سے چودھری نثار کی پارٹی میں واپسی کا امکان نہ ہونے کے برابر نظر آتا ہے۔ لگتا یہی ہے کہ چوہدری نثار علی خان کی مسلم لیگ (ن) میں واپسی کا وقت ختم ہو چکا ہے۔ دوسری طرف چوہدری نثار علی خان کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ چودھری نثاربھی کبھی مسلم لیگ (ن) میں واپسی پر کوئی بات نہیں کرتے، وہ نواز شریف سے اصل جھگڑے کی وجہ تو بتاتے ہیں لیکن واپسی پر بات کرنے کیلئے تیار نہیں ہوتے۔

ذرائع کے مطابق ایک مسلم لیگی لیڈر نے نواز شریف اور چوہدری نثار علی خان کے درمیان اختلاف کی دو وجوہات بیان کیں، ایک یہ کہ جب مسلم لیگ (ن) کی حکومت ختم کی جا رہی تھی تو چوہدری نثار علی خان اس کی وجہ بنے، دوسرا یہ کہ چوہدری نثار علی خان نے مریم نواز کی قیادت میں مسلم لیگ (ن) میں کام کرنے سے انکار کر دیا تھا لیکن پہلی بات حقیقت کے قریب لگتی ہے کیونکہ نواز شریف نتائج کی پروا کئے بغیر’’ آگ‘‘ سے کھیل رہے تھے اس آگ نے ان کو بھسم تو نہ کیا لیکن اس آگ کی شدت سے ان کے ’’سیاسی گھروندے‘‘ کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا جس نے مسلم لیگ (ن) کو مصائب و آلام کا شکار کیا۔

ذرائع کا دعویٰ ہے کہ چوہدری نثار علی خان کی مسلم لیگ (ن) میں واپسی کی راہ میں وہ تمام لیگی رہنما حائل ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی واپسی کے بعد مسلم لیگ (ن) میں ان کا عمل دخل اور پوزیشن ختم ہوجائے گی لہٰذا ان کی پوری کوشش ہے کہ چوہدری نثار علی خان کی کسی صورت مسلم لیگ (ن) میں واپسی نہ ہو۔ مسلم لیگ (ن) بظاہر نواز شریف کی قیادت میں متحد ہے، نواز شریف کو ہر معاملہ میں ویٹو کرنے کے اختیارات حاصل ہیں لیکن وہ پارٹی کے اندر مریم نواز کی سب سے زیادہ سنتے ہیں۔ مریم نواز کو پارٹی امور کے بارے میں نواز شریف سے اپنی بات منوانے کا سلیقہ بھی آتا ہے۔ذرائع کا مزید دعویٰ ہے کہ گزشتہ دنوں نواز شریف اور چوہدری نثار علی خان کے درمیان صلح کرانے کی ایک بڑی کوشش کی گئی تاہم وہ بھی ناکام رہی۔ نواز شریف اپنی بیٹی اور وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز کے کسی مخالف کو پارٹی میں قبول کرنے کو تیار نہیں۔ذرائع کے مطابق چوہدری نثار علی خان اب مسلم لیگ (ن) کے بارے کوئی بات کھل کر نہیں کہتے نجی محافل میں بھی مسلم لیگ (ن) کے بارے میں محتاط گفتگو کرتے ہیں لیکن ان سے ہونے والی گفتگو سے اندازہ لگا یا جاسکتا ہے کہ ان کے دل میں مسلم لیگ (ن) کے لئے نرم گو شہ نہیں، وہ بھی مسلم لیگ (ن) کی سیاست پر کوئی بات کرتے ہیں اور نہ مسلم لیگ (ن) کی قیادت ان کے بارے میں لب کشائی کرتی ہے۔

دوسری جانب وزیر اعظم شہباز شریف کی چودھری نثار سے ملاقات بارے مبصرین کا کہنا ہے کہ ایک زمانے میں شہباز شریف اور چوہدری نثار پاکستان مسلم لیگ (ن) کے ستون سمجھے جاتے تھے۔ ان کی دوستی سیاسی جدوجہد، باہمی احترام اور پارٹی کے لیے مشترکہ ویژن پر مبنی تھی۔ تاہم 2017 میں پارٹی کے اندرونی اختلافات کے باعث ان کے تعلقات میں بھی دراڑ آ گئی اور بالآخر چودھری نثار نے پارٹی سے راہیں جدا کرنے کا فیصلہ کر لیا۔

مبصرین کے مطابق چوہدری نثار اور شہباز شریف کا تعلق 1990 کی دہائی سے ہے، جب دونوں نے نواز شریف کی قیادت میں مسلم لیگ (ن) کو مضبوط بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔شہباز شریف نے جہاں پنجاب میں پارٹی کی قیادت کی وہیں چوہدری نثار نے وفاقی سطح پر ایک ذہین سیاسی رہنما کے طور پر اپنی پہچان بنائی۔ دونوں نے ن لیگ اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان غلط فہمیاں دور کرنے میں ہمیشہ کلیدی کردار ادا کیا۔

تجزیہ کاروں کے مطابق 2017 میں پہلے ڈان لیکس اور بعد میں نواز شریف کی نااہلی کے بعد چوہدری نثار اور مسلم لیگ (ن) کی قیادت کے درمیان اختلافات سامنے آئے۔ نثار نے نواز شریف کے بیانیے سے اختلاف کیا اور کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیا، خصوصاً اداروں کے خلاف نواز شریف کے موقف پر انھوں نے کھل کر اختلاف کیا۔ ان کی اس اختلافی سوچ نے ان کے شہباز شریف کے ساتھ بھی فاصلے پیدا کر دیے۔ جو اس وقت ایک زیادہ متوازن اور محتاط سیاسی راستہ اپنا رہے تھے۔جس کے بعد چوہدری نثار علی خان نے ن لیگ سے راہیں جدا کر لیں۔ تجزیہ کاروں کا مزید کہنا ہے کہ چودھری نثار نے 2018 کے انتخابات میں آزاد امیدوار کے طور پر حصہ لیا۔ اس کے بعد دونوں رہنماؤں کے درمیان کئی سال تک خاموشی رہی۔چوہدری نثار علی خان انتخابات کے بعد سے سیاسی منظرنامے سے قدرے دور ہیں تاہم اب بھی اپنے حلقے اور سیاسی حلقوں میں کافی اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔

Back to top button