کر پٹو کرنسی جرائم پیشہ پاکستانیوں کا نیا ہتھیار کیسے بنی؟

 

 

 

پاکستان میں کرپٹو کرنسی جرائم پیشہ افراد کا نیا سہارا بن گئی۔پاکستان میں اغوا برائے تاوان، حوالہ ہنڈی اور دیگر جرائم میں کرپٹو کرنسی کا استعمال خطرناک حد تک بڑھ چکا ہے۔ مبصرین کے مطابق پاکستان میں کرپٹو کرنسی کے بڑھتے ہوئے رجحان نے جدید ٹیکنالوجی اور سرمایہ کاری کے ایک نئے باب کی شروعات کے ساتھ ساتھ پس پردہ کئی سنگین خطرات کو بھی جنم دے دیا ہے عالمی سطح پر پاکستان کے ورچوئل اثاثوں کو اپنانے کی شرح میں اضافے کے باوجود قانون سازی اور ریگولیٹری فریم ورک کی عدم موجودگی نے اس پورے شعبے کو "گرے ایریا” میں دھکیل دیا ہے۔ پاکستان میں موجود اس قانونی خلا نے کرپٹو کو  غیر قانونی سرگرمیوں کی مالی اعانت کے لیے ایک پرکشش ذریعہ بنا دیا ہے۔ جس کی وجہ سے پاکستان میں کرپٹو کرنسی، حوالہ، ہنڈی، اغوا برائے تاوان اور دہشت گردی میں استعمال ہونے لگی ہے۔

 

معاشی ماہرین کے مطابق پاکستان میں کرپٹو کرنسی کا استعمال گزشتہ چند برسوں میں غیر معمولی رفتار سے بڑھا ہے۔ عالمی انڈیکسز کے مطابق پاکستان دنیا کے ان دس بڑے ممالک میں شامل ہے جہاں ورچوئل اثاثوں کی اپنانے کی شرح سب سے زیادہ ہے۔ یہ رجحان ظاہر کرتا ہے کہ عام شہری سے لے کر کاروباری طبقے تک سبھی کرپٹو کو ایک متبادل سرمایہ کاری اور ترسیلِ زر کے ذریعہ کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ لیکن دوسری جانب اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ ملکی سطح پر ریگولیٹری اور قانونی فریم ورک کی کمی نے اس شعبے کو جرائم کی آماجگاہ بنا دیا ہے۔

 

ماہرین کے بقول سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ کرپٹو کرنسی کے حوالے سے اکثر حکومت اور مرکزی بینک کے بیانات متضاد دکھائی دیتے ہیں۔ حکومت کی جانب سے ایک طرف مستقبل میں کرپٹو کے لیے قانونی ڈھانچہ تیار کرنے کی یقین دہانی کرائی جاتی ہے اور ڈیجیٹل کرنسی کے پائلٹ پروگرامز کی بات ہوتی ہے، دوسری جانب اب تک ڈیجیٹل کرنسی کے حوالے سے کوئی واضح قانون سازی سامنے نہیں آ سکی۔ اس صورتحال نے نہ صرف سرمایہ کاروں کو غیر یقینی میں مبتلاکر دیا ہے بلکہ مالیاتی نظام کو بھی خطرات سے دوچار کر رکھا ہے۔ ماہرین کے مطابق پاکستان کو فوری طور پر کرپٹو کرنسی بارے عالمی معیار کے مطابق قواعد لاگو کرنے چاہئیں تاکہ کرپٹو کرنسی کے ذریعے منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی مالی معاونت کے دروازے بند کیے جا سکیں۔

 

ناقدین کے مطابق کرپٹو کا غلط استعمال کسی حد تک عملی صورت میں سامنے آ چکا ہے۔ ایک طرف حوالہ اور ہنڈی کے روایتی نظام کے ساتھ کرپٹو کے امتزاج نے غیر دستاویزی رقوم کی سرحد پار منتقلی کو مزید آسان بنادیا ہے۔ دوسری طرف میڈیا رپورٹس میں ایسے کیسز بھی سامنے آئے ہیں جہاں کرپٹو کرنسی کو اغوا برائے تاوان کی وارداتوں میں استعمال کیا گیا ہے۔ اگرچہ پاکستان میں کرپٹو کرنسی کے ذریعے دہشت گردوں کی براہِ راست فنڈنگ کے شواہدسامنے نہیں آئے ہیں،تاہم عالمی تجربات یہ بتاتے ہیں کہ جہاں ریگولیٹری خلا موجود ہو وہاں شدت پسند گروہ ایسی صورتحال سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔

فاسٹ بولر وقاص مقصود نے انٹرنیشنل کرکٹ کو خیرباد کہہ دیا

معاشی ماہرین کے مطابق پاکستان میں ڈیجیٹل کرنسی متعارف کرانے کے ساتھ اگر اس کے لئے واضح قانونی ڈھانچہ تشکیل دیا جائے تو اس کے مثبت پہلو سامنے آ سکتے ہیں۔شفاف اور قانونی راستے چلانے سےکرپٹو کرنسی، ترسیلات زر کو سستا اور آسان بنانے کا ذریعہ بھی بن سکتی ہے۔ تاہم جب تک اس حوالے سے  موثر ایکسچینج لائسنسنگ سسٹم قائم نہیں ہوتا، کرپٹو ایک دو دھاری تلوار کی مانند رہے گا۔  ماہرین کا مزید کہنا ہے کہ حقیقت یہ ہے کہ کرپٹو کرنسی میں مواقع موجود ہیں، مگر خطرات ان مواقع سے کہیں زیادہ بڑے دکھائی دیتے ہیں۔ اگر فوری طور پر شفاف قانون سازی نہ کی گئی تو ایک طرف عام سرمایہ کار دھوکہ دہی اور مالی نقصان کا شکار ہوسکتے ہیں، دوسری طرف کرپٹو کرنسی قومی سلامتی کو بھی خطرے میں ڈال سکتی ہے۔ حکومت نے اگر کرپٹو کرنسی کے پورے نظامی کو قانونی ڈھانچے میں لاتے ہوئے شفاف، محفوظ اور جواب دہ نظام میں نہ بدلا تو یہ "گرے ایریا” نہ صرف معاشی بلکہ سلامتی کے بحران کو بھی جنم دے سکتا ہے۔

Back to top button

Adblock Detected

Please disable the adblocker to support us!