بلوچستان میں پولٹری قیادت کے ہاتھوں حقیقی قیادت کیسے ختم ہوئی؟

 

پچھلی دو دہائیوں کے دوران بلوچستان پر بڑھتے ہوئے فوجی غلبے کے نتیجے میں حقیقی سیاسی قیادت تقریبا ختم ہو کر رہ گئی ہے اور عسکری نرسری میں تیار کردہ پولٹری قیادت برسر اقتدار ہے۔ لیکن عوامی حمایت سے محروم حکمرانوں کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ بلوچستان مسلسل سیاسی عدم استحکام کا شکار ہے اور کوئی بھی صوبائی حکومت اپنی مدت پوری نہیں کر پاتی۔

وزیراعلی بلوچستان سرفراز بگٹی کی حکومت کو بھی اب کچھ ایسے ہی مسائل کا سامنا ہے۔ اقتدار کے دوسرے برس اب پیپلز پارٹی کی اتحادی نواز لیگ نے یہ شور مچانا شروع کر دیا ہے کہ وزارت اعلی دونوں جماعتوں کے مابین ڈھائی ڈھائی برس کے لیے طے ہوئی تھی لہذا سرفراز بگتی کو ڈھائی برس پورے ہونے پر استعفی دینا ہوگا تاکہ نون لیگ کا وزیر اعلی منصب سنبھال سکے۔ دوسری جانب پیپلز پارٹی نے دعوی کیا ہے کہ اس کا نواز لیگ کے ساتھ ایسا کوئی معاہدہ نہیں ہوا تھا اور سرفراز بگٹی اپنی پانچ سالہ مدت پوری کریں گے۔ تاہم یہ کشمکش ابھی جاری ہے۔

یاد ریے کہ 1972 سے آج تک بلوچستان کی سیاست زیادہ تر مخلوط حکومتوں کی مرہون منت رہی ہے کیونکہ صوبائی سطح پر کبھی کسی بھی سیاسی جماعت کو تنہا اکثریت حاصل نہیں ہوسکی۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت سازی کے لیے مختلف سیاسی جماعتوں کے اتحاد اور سیاسی سمجھوتوں کا سہارا لینا پڑا۔ چنانچہ کم وبیش تمام مخلوط حکومتیں اختلافات، گورنر راج یا مرکز اور صوبے کے مابین کشیدگی کے باعث اپنی آئینی مدت پوری کرنے میں ناکام رہی ہیں۔

بلوچستان کی پہلی مخلوط حکومت اپریل 1972 میں بنی جب نیشنل عوامی پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام نے اتحاد کر کے سردار عطا اللہ مینگل کو وزیراعلیٰ بنایا۔ لیکن نیشنل عوامی پارٹی ذوالفقار علی بھٹو کی مرکزی حکومت کو تسلیم کرنے سے انکاری ہو گئی جس کے بعد اس کے مرکز کے ساتھ تعلقات خراب ہو گئے۔ اس دوران سردار عطا مینگل کی حکومت پر یہ الزام لگ گیا کہ وہ غیر ملکی مدد سے صوبے کو آزاد کرانے کی سازش کر رہی ہے۔ یوں صرف 9 ماہ بعد فروری 1973 میں مینگل حکومت برطرف کر دی گئی اور صوبے میں فوجی آپریشن شروع ہو گیا۔

سنہ 1989 میں نواب اکبر بگٹی وزیراعلیٰ بنے۔ تب مرکز میں بے نظیر بھٹو کی حکومت تھی۔ بگتی کی حکومت میں پیپلز پارٹی، جے یو آئی اور آزاد ارکان شامل تھے لیکن چند ہی ماہ بعد اتحادی جماعتوں کے اختلافات شدت اختیار کر گئے۔ اس دوران بگٹی اور پیپلز پارٹی کے درمیان تعلقات کشیدہ ہونے کے بعد مرکز کے ساتھ تصادم ہوا اور آخرکار صرف 14 ماہ بعد ہی بگٹی حکومت کا خاتمہ ہو گیا اور صوبے میں گورنر راج نافذ کر دیا گیا۔

سنہ 1990 کے عام انتخابات کے بعد میر ظفر اللہ جمالی بلوچستان کے وزیراعلیٰ بنے لیکن وہ ایوان میں اکثریت ثابت نہ کر سکے اور ان کی حکومت صرف 22 دن کے اندر ختم کر دی گئی۔ بعد ازاں عدالتی حکم پر اسمبلی بحال ہوئی اور نواب اکبر بگٹی وزیر اعلیٰ بنے مگر یہ حکومت بھی زیادہ دیر نہ چل سکی۔ اندرونی اختلافات اور اتحادیوں کی بغاوت کے باعث محض 20 ماہ بعد صدر غلام اسحاق خان نے بے نظیر بھٹو کی حکومت اور قومی اسمبلی توڑ دی۔ 1997 کے الیکشن کے نتیجے میں سردار اختر مینگل وزیراعلیٰ بنے۔ ان کی جماعت بی این پی نے جے یو آئی سمیت دیگر جماعتوں کے ساتھ اتحاد کیا لیکن تھوڑے عرصے بعد وہ اکثریت کا اعتماد کھو بیٹھے اور انہیں استعفیٰ دینا پڑا۔ ان کے بعد میر جان محمد جمالی وزیراعلیٰ بنے مگر 1999 میں جنرل پرویز مشرف کے مارشل لا کے نفاذ کے ساتھ ہی اسمبلی تحلیل کر دی گئی اور یوں یہ حکومت بھی اپنی مدت پوری نہ کر سکی۔

لیکن 2002 میں پہلی مرتبہ بلوچستان میں ایک ایسی مخلوط حکومت بنی جس نے اپنی 5 سالہ مدت پوری کی۔ وہ دور پرویز مشرف کے زیر سایہ تھا۔ تب جام محمد یوسف وزیراعلیٰ بنے اور مسلم لیگ (ق) اور متحدہ مجلس عمل نے حکومت بنانے کے لیے اتحاد کیا۔ اس حکومت میں اختلافات ضرور تھے لیکن وفاق کی پشت پناہی اور مشرف دور کے غیر معمولی کنٹرول نے حکومت کو گرنے سے بچائے رکھا۔ یوں بلوچستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک مخلوط حکومت نے اپنی مدت مکمل کی۔ اس کے بعد 2008 میں پیپلز پارٹی نے نواب اسلم رئیسانی کی زیر قیادت بلوچستان میں مخلوط حکومت بنائی۔ صوبائی اسمبلی میں اس وقت 62 اراکین تھے جن میں ق لیگ کے 20 میں سے 19، جمعیت علماء اسلام کے 10، بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی کے 7، عوامی نیشنل پارٹی کے 3، نیشنل پارٹی پارلیمینٹیرین کے ایک اور 9 آزاد اراکین نے نواب اسلم رئیسانی کی حمایت کی اور یوں ایک مخلوط حکومت قائم ہوئی۔

نواب اسلم رئیسانی کا حکومتی دور تقریباً 4 سال چلا لیکن کوئٹہ کے علاقے علمدار روڈ پر ہونے والے پے در پے 2 دھماکوں میں 100 سے زائد افراد کی ہلاکت کے باعث صوبے میں گورنر راج لگا دیا گیا۔

2013 کے انتخابات کے بعد بلوچستان میں ایک منفرد پاور شیئرنگ فارمولے پر عمل ہوا۔ نیشنل پارٹی، مسلم لیگ (ن) اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی نے ایک معاہدے کے تحت مخلوط حکومت بنائی۔ تب یہ طے پایا کہ ڈھائی سال ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ وزیراعلیٰ رہیں گے اور باقی مدت مسلم لیگ (ن) کے حصے میں آئے گی۔ چنانچہ پہلے عبدالمالک بلوچ نے بطور وزیر اعلی اقتدار سنبھالا اور پھر نواب ثناء اللہ زہری وزیراعلیٰ بنے۔ لیکن نواب ثناء زہری اپنا دور مکمل نہ کر پائے۔ ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائی گئی جس کے بعد انہوں نے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔

سال2018 کے عام انتخابات کے بعد اسٹیبلشمنٹ کی کوکھ سے بلوچستان عوامی پارٹی کی پیدائش ہوئی جس نے پی ٹی آئی اور آزاد ارکان کے ساتھ مل کر بلوچستان حکومت بنائی۔
جام کمال خان وزیراعلیٰ بنے لیکن ان کے خلاف اپنی جماعت کے اندر سے ہی بغاوت شروع ہو گئی جس کے بعد تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں بالآخر وہ مستعفی ہوگئے۔ ان کے بعد عبدالقدوس بزنجو وزیراعلیٰ بنے اور اسمبلی نے اپنی آئینی مدت مکمل کی۔

سنہ2024 کے انتخابات کے بعد پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن) اور دیگر اتحادی جماعتوں نے ایک مخلوط حکومت تشکیل دی جس کے وزیر اعلی میر سرفراز بگٹی وزیراعلیٰ بنے۔ تاہم اس حکومت کو بھی شدید اندورنی اختلافات کا سامنا ہے۔ سرفراز بگٹی سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ وہ ڈھائی برس بعد اپنے عہدے سے مستعفی ہونے کو تیار رہیں چونکہ پاور شیئرنگ فارمولے کے تحت اقتدار کے آخری ڈھائی برس نواز لیگ کے وزیر اعلی کو ملیں گے۔ دوسری جانب پیپلز پارٹی نے ایسے کسی پاور شیئرنگ فارمولے کی موجودگی سے انکاری یے۔

بلوچستان کی نصف صدی پر محیط تاریخ یہ واضح کرتی ہے کہ دہائیوں سے بد امنی کے شکار اس صوبے میں مخلوط حکومتیں ناگزیر ہیں لیکن ان کی بار بار ناکامی کی بڑی وجہ مرکز اور صوبے کے درمیان عدم اعتماد اور اتحادی جماعتوں کے باہمی اختلافات ہیں۔ سیاسی مبصرین کے مطابق بظاہر یہی دکھائی دیتا ہے کہ سرفراز بگٹی کی حکومت بھی اپنے پانچ برس پورے نہیں کر پائے گی۔

Back to top button