نومبر 2024 میں عمران خان نے رہائی کےلیے اسٹیبلشمنٹ سے ڈیل فائنل کرلی تھی : شیر افضل مروت

 

 

 

پی ٹی آئی سے بے دخل رہنما شیر افضل مروت نے انکشاف کیا ہے کہ گزشتہ سال نومبر میں حکومت، اسٹیبلشمنٹ اور عمران خان کے درمیان ایک سمجھوتا طے پا گیا تھا، جس کے تحت عمران خان کو رہا کیا جانا تھا، تاہم اسی رات رینجرز کا واقعہ پیش آگیا جس کے باعث پورا معاہدہ ختم ہوگیا۔

رکن قومی اسمبلی شیر افضل مروت کا کہنا ہے کہ حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان مذاکرات گزشتہ سال 3 نومبر سے شروع ہوئے تھے، مذاکرات کےلیے چار رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی تھی،جس میں بیرسٹر گوہر، علی امین گنڈاپور، محسن نقوی اور رانا ثناءاللہ شامل تھے، بعد ازاں ایک موقع پر وہ خود بھی مذاکراتی عمل کا حصہ بن گئے۔

رکن قومی اسمبلی شیر افضل مروت کا کہنا تھاکہ فریقین کے درمیان متعدد نکات پر اتفاق رائے ہوگیا تھا، جن میں عمران خان کی رہائی بھی شامل تھی۔وفاقی وزیرِ داخلہ محسن نقوی نے بیرسٹر گوہر اور بیرسٹر سیف کو اپنا طیارہ فراہم کیا تاکہ وہ مزید وضاحت کےلیے ملاقاتیں کرسکیں۔ اس کے بعد 25 نومبر کی رات بیرسٹر گوہر کو جیل بھیجا گیا جہاں عمران خان کو ایک ویڈیو پیغام ریکارڈ کرانا تھا اور معاہدے کے تحت اگلی صبح ان کی رہائی طے پائی تھی۔

شیر افضل مروت نے بتایا کہ ریاست اور حکومت اس وقت کسی تصادم سے بچنے کےلیے ہر ممکن کوشش کررہی تھیں، اسی لیے وہ ہر قسم کے مفاہمتی راستے پر آمادہ تھیں۔بیرسٹر گوہر نے عمران خان سے کہاکہ وہ ایک ویڈیو پیغام دیں تاکہ خیبرپختونخوا سے آنے والے کارکنوں کو روکا جاسکے اور وہ سنگجانی سے آگے نہ بڑھیں۔

انہوں نے کہا کہ عمران خان نے ویڈیو بنانے کےلیے بیرسٹر گوہر سے موبائل مانگا لیکن جیل کے قواعد کے باعث ان کے پاس فون نہیں تھا۔ ایک اہلکار نے موبائل دینے کی کوشش کی تو عمران خان نے انکار کرتے ہوئے کہا کہ مجھے شک ہے، یہ ٹیمپرنگ کردیں گے۔مزید بحث کے بعد طے ہوا کہ اگلی صبح بیرسٹر گوہر اپنا موبائل لاکر ویڈیو بنائیں گے،تاہم اسی رات رینجرز کا واقعہ پیش آگیا جس کے باعث پورا معاہدہ ختم ہوگیا۔

شیر افضل مروت نے بتایا کہ اگر وہ واقعہ نہ ہوتا تو نہ صرف عمران خان رہا ہوجاتے بلکہ کئی معاملات بھی طے پا جاتے۔

 

Back to top button