پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس، کیا عمران بارے ہے یا ججز کے متعلق؟

پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس طلب کرنے کے بعد سے تجزیہ کاروں اور میڈیا کی جانب سے مختلف قیاس آرائیاں اور دعوؤں کا سلسلہ جاری ہےکہ اتحادی حکومت کی جانب سے یہ اجلاس ممکنہ طور پر چیف جسٹس کی مدت ملازمت کو بڑھانے، ججز کے تقرر کا طریقہ کار تبدیل کرنے، مخصوص نشستوں کے حوالے سے قانون سازی کرنے یا پھر عمران خان کے فوجی عدالت میں ٹرائل کی منظوری کے لیے منعقد کیا جا رہا ہے تاہم حکومت کا موقف ہے کہ صرف معمول کی قانون سازی کے لیے اجلاس طلب کیا گیا ہے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو توسیع دینے سے متعلق کسی بھی قسم کی آئینی ترمیم یا کوئی بل اس وقت زیرغور نہیں ہے۔ تاہم اپوزیشن جماعتوں نے جہاں حکومت سے فوری طور پر نئے چیف جسٹس کے نام کا اعلان کرنے کا مطالبہ کر دیا ہے بلکہ عدلیہ بارے کسی بھی متوقع قانون سازی کیخلاف سخت ردعمل دینے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔
سپریم کورٹ کے 8 ججز نے عمران کی خاطر آئین سازی کیوں کر ڈالی ؟
یاد رہے کہ قومی اسمبلی کا اجلاس اسلام آباد میں جاری ہے جبکہ 28 اگست کو طلب کردہ پارلیمان کے مشترکہ اجلاس کو اب ملتوی کردیا گیا ہے جو اب اگلے ہفتے منعقد کیا جائے گا۔تاہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ حکمران اتحاد کے عجلت میں طلب کئے گئے مشترکہ اجلاس کو اچانک منسوخ کرنے کی وجہ کیا ہے اور قومی اسمبلی اور سینیٹ کے علاوہ پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس کیوں طلب کیا گیا ہے اور اس میں کون سی اہم قانون سازی ہونے جا رہی ہے؟ مبصرین کے مطابق قانون سازی کے حوالے سے حکومتی اتحادیوں نے تمام کارڈز سینے سے لگا رکھے ہیں جو اراکین اس حوالے سے کسی پیشرفت سے آگاہ ہیں انھوں نے خاموشی اختیار کر رکھی ہے جبکہ جو حکومتی ذمہ داران سامنے آ رہے ہیں وہ اس حوالے سے لاعلمی کا اظہار کر رہے ہیں تاہم ذرائع آنے والے دنوں میں کسی بڑی قانون سازی کی پیشگوئی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ جے یو آئی کی جانب سے مطلوبہ حمایت نہ ملنے پر مشترکہ اجلاس ملتوی کیا گیا ہے تاہم حکومت پر اعتماد ہے کہ جلد مولانا فضل الرحمان اپنا وزن حکومت کے پلڑے میں ڈال دینگے جس کے بعد حکومت کیلئے قانون سازی مزید آسان ہو جائے گی
تاہم پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما قمر زماں کائرہ کے مطابق عمران خان کا فوجی عدالت میں ٹرائل اگر شروع ہوا تو وہ آرمی ایکٹ کے ذریعے ہونا ہے جو کہ پہلے ہی دونوں ایوانوں سے منظور ہو چکا ہے اور باقاعدہ قانون بن چکا ہے۔انہوں نے کہاکہ اگر آرمی ایکٹ کے ذریعے عمران خان کا ٹرائل فوجی عدالت میں شروع کرنا ہے تو اس کے لیے کسی بھی قسم کی آئینی ترمیم، بل یا کسی اور قانون سازی کی ضرورت نہیں ہے۔
چیف جسٹس پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی مدت ملازمت میں توسیع کے حوالے سے قمر زمان کائرہ نے کہاکہ اس وقت جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی مدت ملازمت میں توسیع کے حوالے سے کوئی قانون سازی زیر غور نہیں ہے، میرے خیال میں حکومت نے جو قومی اسمبلی، سینیٹ اور پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس طلب کیا ہے اس میں معمول کی قانون سازی کی جائے گی اور کوئی ایسی بڑی قانون سازی نہیں کی جائے گی جس سے سیاسی ڈھانچے میں کوئی بڑی تبدیلی آجائے، یہ میڈیا پر محض قیاس آرائیاں کی جارہی ہیں۔
قمر زمان کائرہ نے صدر مملکت آصف علی زرداری اور جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کی ملاقات کے حوالے سے کہاکہ ایوان صدر اور جمیعت علما اسلام کی جانب سے اس ملاقات کی وضاحت پہلے ہی آچکی ہے، اس پر مزید تبصروں کی گنجائش نہیں ہے۔
دوسری جانب جمیعت علما اسلام (ف) کے رہنما اور رکن قومی اسمبلی نور عالم خان کا کہنا ہے کہ اس وقت کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہے کہ حکومت کون سی قانون سازی کرنے جا رہی ہے، البتہ ہماری جماعت کی جانب سے ہمیں ایسی کوئی ہدایت نہیں کی گئی کہ کون سی قانون سازی میں حکومت کی حمایت کرنی ہے یا مخالفت کرنی ہے۔انہوں نے کہاکہ اگر کوئی ایسی آئینی ترمیم ہوتی تو جماعت کی جانب سے ہمیں آگاہ کیا جاتا اور کوئی واضح ہدایات دی جاتیں، میرے خیال میں اجلاس میں عام معمول کی قانون سازی ہوگی۔مولانا فضل الرحمان اور آصف علی زرداری کی ملاقات کے حوالے سے نور عالم خان نے کہاکہ میں اس ملاقات میں موجود نہیں تھا اور نا ہی اس ملاقات کے بعد ابھی تک قیادت کی جانب سے کوئی ہدایت آئی ہے کہ کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا۔
تاہم قومی اسمبلی میں چیف وہپ اور مسلم لیگ ن کے رہنما ڈاکٹر طارق فضل چوہدری کے مطابق میڈیا پر مختلف قیاس آرائیاں کی جارہی ہیں کہ حکومت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو توسیع دینے کے لیے کوئی آئینی ترمیم کررہی ہے لیکن ایسا کچھ نہیں ہے۔انہوں نے کہاکہ فی الوقت حکومت کا کسی آئینی ترمیم کا کوئی ارادہ نہیں ہے، آئندہ ہفتے ہونے والے مشترکہ اجلاس میں سابق صدر عارف علوی کی جانب سے مسترد کیے گئے بلز منظوری کے لیے پیش کیے جائیں گے۔ڈاکٹر طارق فضل چوہدری نے صدر آصف علی زرداری اور مولانا فضل الرحمان کی ملاقات کے حوالے سے کہاکہ کسی بھی حکومت کو اپنے نمبرز پورے کرنے کی ہمیشہ سے ضرورت ہوتی ہے، خواہش ہوتی ہے کہ دو تہائی اکثریت حاصل ہو، اس وقت بھی حکومت کی کوشش ہے کہ وہ کسی بھی طرح دونوں ایوانوں میں دو تہائی اکثریت حاصل کرے۔انہوں نے کہاکہ صدر مملکت آصف علی زرداری نے مولانا فضل الرحمان سے ملاقات کرکے ان کی حمایت طلب کی ہے اور ایسے لگتا ہے کہ مولانا فضل الرحمان قائل ہوگئے ہیں۔